215 views
Ref. No. 979

زید کی راشدہ سے چار ماہ قبل شادی ہوئی۔ شادی سے پہلے راشدہ کے بینک اکاونٹ میں ۵ لاکھ روپےک تھے۔ ابھی راشدہ کا اکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ گاڑی وغیرہ کا انشورنس تھا۔ اب انشورنس میں تقریبا دس لاکھ روپے  مل رہے ہیں۔ زید کہتا ہے کہ وہ پیسے میرے ہیں جبکہ لڑکی کے والدین کہتے ہیں کہ وہ پیسے میرے ہیں۔ آپ شریعت کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں کہ شادی سے پہلے سے جو ۵ لاکھ روپےو اس کی ملکیت میں چلے آرہے تھے ان کا مالک کون ہے اور انشورنس کی رقم کا مالک کون ہے؟ والسلام
اختر ممبی
asked Mar 1, 2015 in احکام میت / وراثت و وصیت by jalal

1 Answer

Ref. No. 1057 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشدہ کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی  اس کی ملکیت میں تھا  چاہے وہ بینک میں شادی سے پہلے یا بعد میں  جمع شدہ رقم ہو یا کسی کمپنی میں لگائی گئی رقم ہو سب میں وراثت جاری ہوگی اور شوہر اور لڑکی کے والدین سب کا حصہ ہوگا۔  انشورنس کرانا چونکہ ناجائز ہے اس لئے مرحومہ نے جس قدر مال انشورنس کمپنی کو دیا تھا صرف اس قدر مال  وراثت میں تقسیم ہوگا اور جو زائد رقم انشورنس کمپنی دے رہی ہے وہ حرام مال ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، اس میں نہ تو شوہر کا حصہ لینا درست اور نہ ہی والدین کا۔ دونوں فریق لازمی طور پر اس حرام مال سے احتراز کریں اور اللہ سے ڈریں۔ تاہم اگر سرکاری و غیرسرکاری طور پر صرف بطور تعاون کوئی رقم کسی کی طرف سے دی جائے تو اس کا حقدار وہی ہوگا جس کو وہ رقم دی جائے گی۔  جب مرحومہ کی ساری جائداد﴿ چاہے روپیہ پیسہ ہو یا زمین و مکان جو بھی اس کی ملکیت میں تھے﴾   جمع کرلیں  تو سب سے پہلے اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہے تو اس کو ادا کریں  پھر بقیہ ما ل فقہ اسلامی کی روشنی میں اس طرح تقسیم کریں  گے کہ شوہر کے لیے کل مال کا نصف یعنی آدھا حصہ ہوگا ، باپ کیلئے کل مال کاثلث یعنی  تہائی حصہ ہوگا اور ماں کے لئے  سدس یعنی چھٹا حصہ ہو گا، مثال کے طور پر بالفرض  اگر کل مال 9 لاکھ روپئے کے بقدر ہے تو  لڑکی کے شوہر کو چار لاکھ پچاس ہزار ،  لڑکی کے باپ کو تین لاکھ اور لڑکی کی ماں کو ایک لاکھ پچاس ہزار ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Mar 1, 2015 by Darul Ifta
...