• Print

حجۃاللہ فی الارض شیخ الاسلام والمسلمین المجدد

امام محمدقاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ


سقوط دہلی کے بعد سامراجی ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی علمی تحریک اورام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بانی، ہندوستان میں مجددینِ دین وملت امام مجدد الف ثانی اور امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے بعد تیسرے مجدد، علومِ ولی اللہی کے امین ،محافظ اور شارح، جدید فلسفۂاسلامی کے بانی، اکابر علمائے دیوبند کے قدوہ ،ہندوپاک میں ہزاروں مدارس و مکاتب کے روحانی پیشوا،علم کلام اور فلسفۂ اسلامی میں تحذیر الناس،قبلہ نما، تصفیۃ العقائد،مناظرۂ عجیبہ،آب حیات اور اسرارقرآنی وغیرہ جیسی معرکۃ الآراء کتب ورسائل کے مصنف.

مختصر سوانح حیات:

حجۃ الاسلام امام محمد قاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ تیرہویں صدی ہجری کی ان عبقری شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے عالم اسلام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہندوستان میں تجدید دین اسلام کے دو عظیم مجدیدین یعنی ۱۶ویں صدی عیسوی کے مجددالف ثانی قدس سرہ العزیز اور۱۸ویں صدی عیسوی کے امام الہندحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نوراللہ مرقدہ کے بعد ۱۹ویں صدی عیسوی میں امام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہ العزیز نے تجدید دین کا اہم ترین کارنامہ انجام دیا۔ آپ علوم ولی اللہی کے آخری امین تھے اور ہندوستان میں فکرولی اللہی کو محفوظ کردینے کا عظیم الشان کارنامہ آپ نے ہی انجام دیا۔ دارالعلوم دیوبند کی تاسیس حضرت الامامؒ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس نے فکر ولی اللہی کو فکر قاسمی کا نام دیا اور بعد کے آنے والے وقت نے اسی فکرولی اللہی کی تشریح فکر قاسمی میں دیکھی۔ علمائے ہند نے امام نانوتوی قدس سرہ العزیز کو فکر ولی اللہی کا سب سے عظیم شارح اور سب سے عظیم محافظ تسلیم کیا ہے۔ اسی لیے ہندوپاک کے علمی حلقوں میں فکر قاسمی کو فکر ولی اللہی کا مترادف تسلیم کیا جاتا ہے۔
امام نانوتویؒ کی پیدائش؁ ۱۸۳۲ء میں دیوبند کے نزدیک قصبہ نانوتہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام شیخ اسدتھا۔ امام نانوتویؒ کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔امام محمدقاسم نانوتوی علیہ الرحمہ مکتبۂ فکر ولی اللہی کے آخری خوشہ چیں ہیں۔حضرت الامامؒ نے علوم حدیث امام عبدالغنی مجددی نوراللہ مرقدہ سے حاصل کئے۔ آپکے برگزیدہ اساتذہ کی فہرست میں اس وقت کے معروف محدث حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام بھی شامل ہے۔ہندستان میں علوم نبوت کے مایۂ ناز مرکزولی اللہی مدرسہ میں زانوئے تلمذطے کرنے سے قبل حضرت الامام ؒ نے مولانا مملوک علی ؒ سے منطق،فلسفہ اور علم کلام کی کتابیں پڑھیں۔ ا مام محمد قاسم نانوتوی ؒ نے اپنی صوفیانہ حیات حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیز کے دست حق پر بیعت کرکے گزاری اور آپ کو مہاجر مکیؒ نے اپنی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔دوران تعلیم ہی حضرت الامامؒ کی ذہانت، علم وفضل اور بصیرت ایمانی کی شہرت عام ہوگئی تھی۔ اسی لئے امام محمد قاسم ؒ کے نامور ہم عصر اور علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان مرحوم نے امام ؒ کے علم وفضل، تقوی اور فہم وفراست کے بارے میں لکھا ہے:
’’لوگوں کو خیال تھا کہ بعدجناب مولوی محمد اسحاق صاحب کے کوئی شخص ان کی مثل ان تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے، مگر مولوی محمد قاسم صاحب نے اپنی کمال نیکی، دینداری اورتقوی اور ورع ومسکینی سے ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم وتربیت کی بدولت مولوی محمد اسحاق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ۔‘‘

محمدقاسم نانوتوی سے الامام وحجۃ الاسلام تک کا سفر:

صدر شعبہ تفسیر دارالعلوم ندوۃالعلمأ،لکھنؤمولانامحمد برہان الدین قاسمی سنبھلی کے الفاظ میں (حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتویؒ حیات، افکار،خدمات، ص۲۹۹):
’’ہندوستان کی علمی جامع تاریخ ’’نزہۃالخواطر‘‘ (نیا نام : الاعلام بمن فی تاریخ الھند فی الاعلام) کے بالغ النظر مرتب و مصنف ، جو ایک ایک حرف ناپ تول کر لکھنے کے لئے مشہور ہیں ، نے ہندوستان کے قریبی زمانے کے علمائے کبار میں صرف دو شخصیتوں کے لئے ’’الامام‘‘ استعمال کیا، ایک شہرۂ آفاق درس نظامی کے بانی ملّانظام الدینؒ فرنگی محلی کے لئے دوسرے ہم سب کے ممدوح و محسن حضرت مولانامحمد قاسم ؒ نانوتوی کے لئے، بلکہ دونوں شخصیتوں کا تذکرہ ایک ہی طرح کے القاب سے شروع کیا ہے، یعنی ’’الشیخ الامام العالم الکبیر‘‘۔
حضرت الامام ؒ کا تجدیدی سفرعلوم نبوت کے ایک طالب علم محمد قاسم نانوتوی سے شروع ہوتا ہے اور اسکی تکمیل محض ۴۷سال کی عمر میں ’’الامام‘‘ و ’’حجۃ الاسلام‘‘ جیسے جلیل القدر القاب پر پہونچ کر ہوتی ہے۔ داراصل اس سفر کی ابتداء محض ۱۷ سال کی عمر میں بخاری شریف (اصح الکتب بعد کتاب اللہ) پر حاشیہ لکھنے جیسے وقیع کام سے ہوتی ہے۔ اسکے بعد تجدید دین کے عظیم الشان و زندہ جاوید کارناموں میں ہندواور عیسائی مبلغین سے دندان شکن مناظرے کرکے اسلام کی عظمت اور رفعت میں چار چاند لگا دینا، مسلمانوں کے اندر رائج بیہودہ اور قبیح رسموں کے خلاف جہاد چھیڑ نا، ان قبیح رسموں اور بد عقائد کی بیخ کنی کرکے اسلام کو تپ کر نکھر ے ہو ئے سونے کی طرح عالَم کے سامنے پیش کرنا اور نکاح بیوگان کا عظیم تجدیدی کارنامہ اپنے ہی گھر سے انجام دینا حجۃ اللہ فی الارض المجدد حضرت الامام محمد قاسم النانوتویؒ کو اس مقام پرپہونچا دیتا ہے جہاں پر اس امت نے کبھی امام ابوحنیفہؒ ،امام الغزالیؒ ،حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ،شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ،مجد د الف ثانیؒ ،امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسی عبقری شخصیات کو کھڑے دیکھا تھا۔تجدید دین کے عظیم کارناموں میں امامؒ کے قلم سے نکلے ہوئے علوم و حکمتِ قاسمیہ کے وہ نادر شہ پارے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو مسلکِ حق کی اساس بنے۔امام نانوتوی ؒ کے یہی رسائل ، کتب ،مخطوطات و مکاتیب دین حنیف کے اسرار رموز اور معرفت کو اپنے اند ر سمو کر جاء الحق وزھق الباطل کی تفسیروتشریح بن گئے ہیں۔
اور پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عظیم مجدد ایسا کارنامہ انجام دے ڈالے جو دین متین اور علوم شریعہ کی خدمت کا ایسا ذریعہ ہو جو رہتی دنیا تک مجدد کی تجدید ی صلاحیت و فراستِ ایمانی وحکمت ودانائی کی زندہ مثال بنا رہے۔ اسی محمد قاسم نانوتوی نے دارالعلوم کی شکل میں ایک شجرطوبٰی کا بیج بو دیا جو آج دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ایک تناور درخت ہے۔
محض ۴۷ سال کی قلیل حیاتِ جسمانی میں میدان جہاد سے لیکر،مناظروں کے علمی میدان ،جدید علم کلام او ر فلسفۂ دین کی بنیاد رکھنے ،اوراپنی معرکۃ الآراء تصانیف کے ذریعے علوم شرعیہ کی عظیم الشان تشریحات تک اور عملی تجدیدی اقدامات سے لیکر علم وحکمت و دانائی کے مراکز کے قیام تک محمد قاسم النانوتویؒ کے ایسے کارنامے ہیں جو یقیناا ن کو محمد قاسم سے ’’الامام‘‘ و ’’حجۃ الاسلام‘‘ کے جلیل القدر مقام پر فائز کرتے ہیں۔

جہادِ میدانِ شاملی:

حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ؁ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلّح جہاد میں شریک ہوئے۔ اس جہاد آزادی کا مقصد انگریز حکومت کو شکست دیکر ہندوستان میں اسلامی اقتدار کی واپسی تھا۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدیہ جہادچند خداترس نفوس کی ایک کاوش تھی جو کسی صورت میں بھی یہ گوار ہ کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ہندوستان پر قائم ایک ہزارسالہ اسلامی اقتدارکا اس طرح خاتمہ ہو جائے اور یہ ملک دارالاسلام سے دارالکفر بلکہ دارالحرب بن جائے۔ ان نفوس مقدسہ کے اس مسلح جہادکا محرک حضرت شاہ عبدالعزیز نوراللہ مرقدہ کا وہ تاریخی فتوی بھی تھا جس کے تحت حضرت شاہ صاحبؒ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیکر جہادبالسیف کی فرضیت کا اشارہ دیاتھا۔ دراصل حضرت الامام محمد قاسم نانوتویؒ اور جہاد شاملی میں شامل مجاہدین کی یہ جماعت امّت مرحومہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہی تھی۔

امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز کے رویائے صادقہ اور انکی تعبیر:

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اوّل حضرت مولانا یعقوب نانوتوی صاحبؒ نے حضرت الامامؒ کے لڑکپن کا ایک خواب بیان کیا ہے کہ حضرت الاما محمد قاسم ؒ نے خواب میں دیکھا تھا کہ ’’میں خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑاہوں اور مجھ سے نکل کر ہزاروں نہریں جاری ہورہی ہیں ‘‘۔حضرت الامام ؒ کے استاذمولانامملوک علی نانوتوی ؒ نے اس خواب کی تعبیر یہ دی تھی کہ ’’تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہوگا۔‘‘ اسی طرح امامؒ نے ایک اور خواب دیکھا تھا کہ’’میں خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑاہوں اور میرے پاؤں کے نیچے سے نہر جاری ہے جو کوفہ کی طرف سے آرہی ہے‘‘۔ ان دونوں ہی خوابوں کی تعبیر دارالعلوم دیوبندکی تاسیس کی شکل میں پوری ہوئی،اور کوفہ کی طرف سے آنے والی نہردارالعلوم کے مسلکِ حنفی کی طرف اشارہ ہے جس مسلک کے شارح اور امین بانئی دارالعلوم حضرت الامام محمد قاسم نانوتویؒ بذات خود تھے۔

میلہ خدا شناسی اور امامؒ کی عظیم الشان تقریر:

میلہ خدا شناسی یا تحقیق مذاہب غالباًعیسائی مشنریوں کے منصوبوں کا ایک حصہ تھا۔یہ جلسے علیحدہ علیحدہ مقامات پر منعقد کئے جاتے تھے اور الحمد للہ ہر بار علماء اسلام ان جلسوں میں عیسائی مشنریوں کے عزائم کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ میلہ خدا شناسی پادری نولس اور منشی پیار ے لال کے اشتراک سے مئی؁۱۸۷۶ء میں چاندپور میں دریا کے کنارے منعقد ہوا۔امام نانوتویؒ عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں کے فتنے کی سرکوبی اور اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے لئے اپنے تلامذہ شیخ الہند مولانا محمود حسن،مولانا فخرالحسن گنگوہی،حکیم رحیم اللہ بجنوری رحمہم اللہ وغیرہ کے ساتھ ۶؍مئی ۱۸۷۶ ؁ء کی صبح شاہ جہاں پور تشریف لائے۔امام نانوتویؒ کی تقریر غیر معمولی تھی۔چونکہ ہر جگہ ایسے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو علم کی گہرائی اور تقریر کے وزن کو تول سکتے ہیں اور دیانت دارانہ صاف رائے دیتے ہیں ایسے ہی لوگوں میں کئی ہندو پنڈتوں نے امام ؒ کی تقریر پر داد تحسین دی ۔ہندو پنڈتوں کے یہ کلمات تحسین گفتگوئے مذہبی کے آخر میں شائع ہوئے ہیں۔
بعد میں بھی میلہ خدا شناسی منعقد کیا گیا اور امام نانوتویؒ پھر اس میں تشریف لے گئے اور آپ نے مقارنۃ الادیان کے موضوع پر اپنی علمی دسترس کا لوہا منوایا۔مقارنۃ الادیا ن کے موضوع پر آپ کی تقاریر اور پوری روداد مباحثہ شاہ جہان پور کے نام سے مولانا فخرالحسن گنگوہیؒ نے مرتب کی۔ یہاں یہ وضاحت بلکہ انکشاف ضروری ہے کہ اصل تقریر خود حضرت الامامؒ نے لکھی تھی اور وہ ہی اس مجموعہ میں شامل ہے۔

تحریک دیوبند کے اسباب:

حضرت شاہ عبد الغنی مجددی قدس سرہ العزیز امام شاہ ولی اللہ نوراللہ مرقدہ کی مسند درس پر متمکن آخر ی محدث تھے۔ ۱۸۵۷ ؁ء میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب دہلی کا ولی اللہی مرکزِعلم تاراج ہو گیا تو شاہ عبد الغنی مجددیؒ نے حجاز کی طرف ہجرت فرمائی اور اسکے بعد گویا علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کے تمام دروازے بند ہوتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ ہندومذہبی تحریکوں اور انگریز حکومت کے تنخواہ دار عیسائی مبلغین نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ شروع کردی ۔ انگریز حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل کر رہی عیسائی مشنریوں نے اسلام کے خلاف مسلمانوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ عام کردی۔ ہندوستان میں اسلام کی شمع بجھتی ہوئی دکھائی دینے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ خدانخواستہ ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دوہرائی جائیگی۔ اسی تاریک دور میں علوم ولی اللہی کے آخری خوشہ چیں حضرت امام محمد قاسم نانوتویؒ اور آپکے رفیقِ درس امام ربانی فقیہ العصر علامہ رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ مینارۂ نور بن کر ابھرے۔ امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز نے شاملی کے میدان میں جس مسلح تحریک اور جنگ آزادی کی قیادت فرمائی تھی اسکے ناکام ہونے کے بعدحضرت الامامؒ نے اپنی بصیرت ایمانی سے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ دین اسلام کے تحفظ کا واحد ذریعہ ا ب صرف دین کی ترویج و اشاعت اورایسے خداترس علماء اور مبلغین اسلام پیدا کرنا ہے جو مرد آہن بن کر سنت اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع کرتے ہوئے دین متین کو ہندوستان کے کونے کونے میں اس انداز سے پھیلا دیں کہ ہر مسلمان اپنے آ پ میں تبلیغ اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک ہو۔
امام نانوتویؒ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں برطانوی استعمار پر ایک زبردست ضرب لگاچکے تھے، جو معرکہ شاملی کے نام سے تاریخ ہند کا ایک روشن باب ہے۔ انگریزکی زبردست قوت کے سامنے اگرچہ یہ مہم ناکامی پر منتج ہوئی اور ہندوستان پرمسلم اقتدارکا خاتمہ ہو گیامگر حجۃ الاسلام حضرت الامام محمد قاسم نانوتویؒ کے دل ودماغ اور فکر ونظر نے ہمت نہیں ہاری،انہوں نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا اور میدان جہاد سے ہٹ کر میدان علم کاانتخاب فرمایا۔ آپکا مقصد اب دینی مدارس کے قیام کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے دین و ایما ن سے جوڑے رکھنااور باہر کی مسموم ہوا سے ان کے دل ودماغ اور عقائدکو متاثر ہونے سے بچانا تھا۔
تاریخ دارلعلوم دیوبند(ص۔۱۴۹،ج ۔اول)میں درج ہے کہ:
’’چنانچہ اس وقت بنیادی طور پر اس نقطۂ نظر کو سامنے رکھا گیاکہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملّی شیرازہ بندی کے لئے ایک دینی وعلمی درسگاہ کا قیام ضروری ہے، اس مرکزی فکر کی روشنی میں حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی ؒ اور ان کے رفقاء خاص مولانا ذوالفقارعلی صاحب ، مولانا فضل الرحمن صاحب اور حاجی محمد عابد صاحب نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں دینی درسگاہ قائم ہونی چاہئے۔‘‘
اس تاریخی فیصلے کے بعد ۱۵؍محرم الحرام ۱۲۸۳ ؁ہجری،(۳۰؍مئی۱۸۶۶ ؁ء)کو دیوبند کی چھتہ مسجد میں ایک استادملّامحموؒ د اور ایک شاگرد محمود(شیخ الہندمولانامحمود حسن ؒ )کے ساتھ اس مدرسہ اسلامیہ دیوبند کی تاسیس عمل میں آئی، مدرسہ اسلامیہ دیوبند کی تاسیس چونکہ ایک اسلامی علمی انقلاب کا اعلان تھا اس لئے امام نانوتوی قدس سرہ العزیز نے مدرسے کو انگریز حکومت کے عتاب سے بچائے رکھنے کے لئے مدرسے کی تاسیسی حرکات وسکنات سے اپنے آپکو دور رکھا اور تا حیات مدرسے میں کسی بھی عہدے کو قبول نہیں فرمایا۔اپنی بصیرت و حکمت سے مدرسے کی ترقی کے لئے آپ اسکے سرپرست اوّل بن کر رہے جو کہ کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں تھا ۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی مدظلہ العالی کے الفاظ میں(حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتویؒ حیات، افکار،خدمات، ص۳۴۸):
’’دارالعلوم کی تاریخ بتاتی ہے کہ دارالعلوم کا نقطۂ آغاز حضرت حاجی عابد حسین صاحب ؒ کایک بیک فراہمئ سرمایہ کے لئے اٹھ کھڑے ہونا ہے اور جب مالی اعتبار سے یہ اعتماد ہوا کہ اس سے ایک سال تک ایک چھوٹا سا دینی مدرسہ چلایا جا سکتا ہے تب حضرت نانوتوی کو مطلع کیا گیا کہ ہمارے اور آپکے درمیان جو دینی مدرسہ قائم کرنے کے سلسلے میں گفتگو ہوا کرتی تھی اب اسکی ایک شکل ہو گئ ہے، آپ فوراً کسی عالم کو بھیج دیں کہ مدرسے کا کام شروع کردیا جائے،آپنے ملّا محمود دیوبندی ؒ کو ۱۵روپئے ماہانہ کی تنخواہ مقرر کر کے بھیج دیا اور چھتہ مسجد میں دیوبند کے معززین کی موجودگی میں ایک استاد اور ایک طالب علم سے ایک دینی مدرسے کا افتتاح کر دیا گیا۔‘‘
حضرت الاما م قدس سرہ العزیز میرٹھ میں رہ کر مدرسے کے تمام احوال و کوائف سے صرف واقف ہی نہیں تھے بلکہ مدرسے کی مستقل ترقی اور اسے ایک عالمی ادارہ بنانے کی تدابیر میں منہمک تھے۔دارالعلوم کا پہلاجلسۂ دستاربندی صرف آپکے مشورے کے مطابق ہی عمل میں آیا تھا اور اسی موقع پر حضرت الامام ؒ نے ایک قطعۂ اراضی خرید لیا تھا۔
مولانا ابولقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند مزیدلکھتے ہیں:
’’حضرت نانوتوی ؒ نے ساری ذمہ داریاں جو حضرت حاجی صاحبؒ ادارے کے تئیں انجام دیتے تھے پھر ان ہی کے سپرد کردیں اور خود اپنی ذات کو عملاً اس سے علیحدہ رکھا جب کہ اب دارالعلوم ٹھیک حضرت نانوتویؒ کے منشاء کے مطابق ایک عالمی دینی یونیورسٹی ہونے کے پہلے اسٹیج پر آچکا تھا۔ اب آپ کو خود اسکی سرگرمیوں میں پوری طرح شریک ہو جانا چاہئے تھا ،تاکہ آئندہ ہر کام جو کہ دارالعلوم کی ترقی اور توسیع کے لئے ضروری ہے اپنے خاکہ کے مطابق بروئے کار آئے۔ لیکن آپ نے عجلت پسندی سے کام نہیں لیا بلکہ آپ کے سامنے وہ تمام مصلحتیں تھیں جو سادہ دل حضرت حاجی صاحب کی دنیاوی تعلقات سے یکسوئی کی وجہ سے آپ کے سا منے نہیں تھیں۔ ‘‘

ابتداء تعمیر:

حضرت مولانا سید میاں صاحب ؒ اپنی مشہور تصنیف ’علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’بلاشبہ دیوبند میں پاک طینت بزرگوں کی ایک جماعت تھی جس نے ایک مکتب کی بنیاد ڈالی،مگر جس مقدس بزرگ نے معمولی مکتب کے خاکے پر دارالعلوم جیسی عظیم الشان انقلابی درسگاہ کی بنیاد رکھی وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی ذات گرامی تھی۔‘‘
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ دارالعلوم کے پر شوکت تصور سے حضرت حاجی صاحب کا ذہن یکسر خالی تھا۔چنانچہ جب دارالعلوم کی تعمیر کا مألہ در پیش ہوا تو حاجی صاحب نے سختی سے مخالفت کی ۔حاجی صاحب کا اصرار یہی تھا کہ جامع مسجد کی سہ دریاں جو اسی خیال کے پیش نظر بنائی گئی تھیں کافی ہیں۔‘‘ (ص۷۴)
۲؍ذی الحجہ ۱۲۹۲ ؁ہجری بروزجمعہ نمازکے بعد جامع مسجد میں مقامی و بیرونی حضرات کا بہت بڑا اجتماع ہوا، جس کی اطلاع اشتہار کے ذریعے پیشگی دی جا چکی تھی ۔ حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز نے تقریر فرمائی اور آخر میں اعلان کیا کہ سب حضرات تشریف لے چلیں تاکہ مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا جائے۔
’’حضرت حاجی عابد حسین صاحب چونکہ جامع مسجد کی سہ دریوں کو مدرسے کے لئے کافی سمجھتے تھے انہوں نے اس وقت بھی مخالفت کی ۔ چنانچہ جب مجمع مدرسہ کی بنیاد گاہ پر جا رہا تھا حضرت حاجی صاحب الگ ہو کر مسجد چھتہ میں تشریف لے آئے۔ لیکن حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کو اپنے ایک رفیق کی ناگواری اور کبیدگی کب گواراہو سکتی تھی۔ آپ بھی پیچھے پیچھے مسجد چھتہ میں پہونچ گئے اور حاجی صاحب سے پکارکر فرمایا۔ اجی صاحب آپ توہمارے بڑے اور ہم سب آپ کے چھوٹے ہیں اور آپ نے ان چھوٹوں کے ساتھ کیا بے رخی اوربے توجہی برتنی شروع فرمادی۔کچھ ان الفاظ کا ایسا اثر حاجی صاحب ؒ پر پڑا کہ بے اختیار ہو کر گر پڑے اور اتناروئے کہ ٓاواز نکل پڑی اور کہا کہ مولاناللہ میرا قصور معاف فرمائے ۔ حضرت نانوتوی ؒ نے حضرت حاجی صاحبؒ کو اٹھا کر گلے لگالیا اور فرمایاحاجی صاحب آپ کیا فرما رہے ہیں آپ توہمارے بڑے ہیں ،بزرگ ہیں۔پھر حضر ت حاجی صاحب کو لیکر بنیاد پر پہونچے جہاں تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ‘‘(ص۵۵)۔

امام محمدقاسمؒ کی درس حدیث کا طریقہ:

حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ برصغیر ہندوپاک میں درس حدیث میں حنفیہ کے اثبات وترجیح اور تنقیحات و تشریح کا وہ انداز جو دارالعلوم دیوبند کا طرہ ٴ امتیازہے، حجة الاسلام اس طریقہٴ درس حدیث کے بانی ہیں۔ برصغیر ہند میں ۱۳ویں صدی ہجری تک فقہی آراءکوہی کافی سمجھا جاتاتھا۔امام نانوتویؒ کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے حنفی فقہ کو حدیث کا تابع کیا جو کہ اب تک نہیں تھا۔ مولانا ظفرتھانویؒ امام نانوتویؒ کے طریقۂ درس حدیث کے بار ے میں تحریر فرماتے ہیں۔’’مولانا(قاسم نانوتویؒ )بڑے دعوے کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ اقوال ابو حنیفہؒ کو حدیث کے موافق ثابت کرنے کا میں ذمہ لیتا ہوں لیکن تخریجات فقہا ء کا میں ذمہ دار نہیں۔‘‘
مولانا ظفر تھانویؒ حکیم الامت حضر ت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حوالے سے مزیدارشاد فرماتے ہیں، ’’جن لوگوں نے مولانا کی تقریر درس حدیث سنی ہے وہ اس کے شاہد ہیں کہ واقعی مولانا اقوال ابو حنیفہ کی تقریر ایسی کرتے تھے جس کے بعد وہ بالکل حدیث کے موافق نظر آتے تھے۔حدیث کو قول ابو حنیفہ کے مطابق نہیں کرتے تھے کہ اس کا خلاف اد ب ہونا ظاہر ہے بلکہ قول ابو حنیفہ کو حدیث کے مطابق کر دیا کرتے تھے۔‘‘
جس طریقۂ درس حدیث کو امام محمدقاسم نانوتویؒ اور بعد میں آپ کے شاگرد رشید شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ نے رواج دیااور پروان چڑھایا وہ مسلک وفقہ حنفیہ کی تشریحات کا واحد ذریعہ بن کر مقبول ہوگیا۔بعد میں یہی طریقۂ در س حدیث برصغیر ہند کے تمام مدارس کے لئے ناگزیر بن گیااور مدارس دینیہ کے طریقۂ درس کا اٹوٹ حصہ بن کر اس حد تک رائج ہوگیا کہ اب اس سے کسی قسم کا اعراض ناممکن ہے۔

حضرت الامام محمد قاسم نانوتویؒ کے مشہور تلامذہ:

امام نانوتویؒ کے شاگردوں میں سرفہرست شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ العزیز کا نام آتاہے۔ شیخ الہندؒ نے امام نانوتویؒ سے علوم حدیث پڑھی۔ ۱۲۸۹ ؁ہجری میں امام نانوتویؒ نے انہیں دستار فضیلت سے نوازا۔شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندیؒ اپنے استاذامام نانوتویؒ کی رفاقت میں۱۲۹۴ہجری میں پہلی بار حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔اسی سفر میں امام نانوتویؒ کے استاذشاہ عبدالغنی مجددیؒ سے شیخ الہند ؒ کو سند حدیث ملی اور امام نانوتویؒ کے پیرومرشد سیدالطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔شیخ الہند ؒ وراثتِ علمیہ قاسمیہ کے سب سے بڑے امین ہوئے۔ مولانا محمود حسن ؒ نے تحریک آزادی میں نمایا کردار ادا کیا، اسکے علاوہ حدیث اور فقہ حنفی کی گراں قدر خدمات انجام دیں اور قرآن کریم کا اردو ترجمہ کیا۔
امامؒ کے دوسرے خاص شاگرد مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہیؒ ہوئے ہیں۔ مولانافخر الحسن صاحبؒ نے امام نانوتویؒ کے علوم و افادات کی حفاظت اور ترتیب و تحریر و اشاعت میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں ۔مولانا فخر الحسنؒ نے حدیث کی بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ سنن ابو داؤد کی تصحیح کی اور اس پر اس کے علاوہ سنن ابن ماجہ پرحاشیہ لکھا۔
امام ؒ کے تیسرے مشہورشاگرد مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔آپ پر حضرت الامامؒ کی خاص نظر تھی۔ اس وقت کے مشہور محدثین علامہ احمد علی محدث سہارنپوریؒ ،حضرت شاہ عبد الغنی مجددیؒ اور حضرت قاری عبدالرحمن پانی پتی سے اجازت حدیث حاصل کی۔امام نانوتویؒ سے بیعت ہوئے اور سیدالطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے اجازت خلافت حاصل کی۔
ان تین مخصوص شاگردوں کے علاوہ امامؒ کے دیگر شاگرد بھی ہوئے ہیں۔

حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ کی تصانیف:

امام محمد قاسم نانوتویؒ نے مختلف موضوعات پر اپنا قلم اٹھایا ۔ آپ کی تصانیف نہایت علمی اور تحقیقی ہیں۔آپکی تصانیف علم کلام سے لبریز ہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے اپنی تصانیف میں جدید فلسفۂ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ علم کلام کی گہرائی اور فلسفۂ دین کے سبب حضرت الامامؒ کی تصانیف عام فہم نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ علماء کا وہ طبقہ جو علمِ کلام پر گہری نظر نہیں رکھتا اس طبقے کے لئے بھی امام نانوتویؒ کی تصانیف کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ امام نانوتویؒ کی باقاعدہ تصانیف کی علمی نوعیت اور علمی حلقے میں انکے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے ذاتی مکتوبات گرامی ہی کس قدر علم کی گہرائی لئے ہوئے ہیں، اکثر مکتوبات گرامی ہی بعد میں تالیفات اور تصانیف کی شکل میں شائع بھی کئے گئے اور انکو شائع کرنے والے ان مکتوبات کے مکتوب الیہ ہی ہیں جو ان مکتوبات کے انتہائی اعلی علمی مندرجات سے بے پناہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کے الفاظ میں(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ،احوال و آثاروباقیات ومتعلقات ص۶۹۱):
’’علمی موضوعات پر جو گرامی نامے تحریر فرمائے ہیں انکے مباحث میں بڑا تنوع اور وسعت ہے، ان میں اسرار دین و شریعت کی گفتگوہے،تفسیر و حدیث کے نکات کی گرہ کشائی فرمائی گئی ہے،فقہی مسائل بھی زیر قلم آئے ہیں۔تراویح و قرأت ضاد(ض)،جمعہ اور اس دور میں موضوع بحث بنے ہوئے مسائل پر بھی توجہ فرمائی گئی ہے۔ہندوستان کی شرعی حیثیت اور اس کے دار الحرب ہونے نہ ہونے اور یہاں عقود فاسدہ پر بھی اظہار خیال فرمایا گیا ہے۔شرک و بدعت کے کلیدی مباحث کو بھی واضح کیا گیا ہے،مختلف دینی فرقوں کے نظریات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے،امکان نظیر کے واضح دلائل تفصیل سے لکھے ہیں،امتناع نظیر کے ماننے والوں کے دلائل کا علمی تجزیہ فرمایا ہے۔ردشیعت پر بھی خاص توجہ ہے،خلافت وامامت اور باغ فدک وغیرہ کے مشہور اختلافی موضوعات کا بھی علمی،عقلی جائزہ لیاہے۔مسلمانوں کے بگاڑ و زوال کے اسباب کا ذکر ،اوراپنوں کی اندرونی کمزوریوں پر بھی کہیں کہیں احتساب کیا ہے۔غرض بیسیوں موضوعات و مباحث ہیں جو ان مکتوبات میں زیر قلم آئے ہیں، لیکن ہر ایک کی جامعیت، مضامین کی فراوانی اور دلائل کی گہرائی وگیرائی کا یہ عالم ہے کہ ہر تجزیہ منفرد اور ہر بحث حرف آخر معلوم ہوتی ہے۔‘‘

حضرت الامامؒ کی زیادہ تر تصانیف کتب و رسائل کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔اور کچھ تصانیف مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہیں۔ شائع ہو چکی تصانیف کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
۱۔بخاری شریف تصحیح وحواشی(طباعت اول ۱۲۶۴ ؁ھ): امام ؒ کے استاذمحترم حضرت مولانا احمد علی محد ث سہارنپوریؒ کے حکم پر الامام نانوتوی قدس سرہ العزیزنے بخاری شریف کے آخری ۳ پاروں کے حواشی کا تکملہ محض ۱۷ سال کی عمر میں فرمایا تھا۔
۲۔آب حیات(طباعت اول ۱۲۹۸ ؁ھ)
۳۔اجوبۂ اربعین(طباعت اول ۱۲۹۱ ؁ھ)
۴۔الاجوبۃ الکاملہ فی الاسولۃ الخاملۃ(طباعت اول ۱۳۲۲ ؁ھ)
۵۔الدلیل المحکم علی قراۃ الفاتحۃ للمؤتم(طباعت اول۱۳۰۲ ؁ھ)
۶۔توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام(طباعت اول۱۳۰۲ ؁ھ) اس اشاعت کے آخر میں ایک فتوی بھی شامل ہے کہ غیر مسلم کے ذبح کئے ہوئے گوشت کا کیا حکم ہے۔دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث مولانا سعید احمد پالنپوری صاحب مدظلہ العالی نے الدلیل المحکم اورتوثیق الکلام کی مشترک شرح ’’کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟‘‘ لکھی ہے۔
۷۔اسرار قرآنی(طباعت اول۱۳۰۴ ؁ھ)
۸۔انتباہ المومنین(طباعت اول۱۲۸۴ ؁ھ)
۹۔انتصارالاسلام(طباعت اول۱۲۹۸ ؁ھ)
۱۰۔تحذیر الناس (طباعت اول۱۲۹۱ ؁ھ)یہ کتاب حضرت الامام قدس سرہ العزیز کی معرکۃ الآرا ء تصانیف میں سے ایک ہے جسکا موضوع ختم نبوت ﷺہے۔ مگر یہ کوئی باقاعدہ تالیف نہیں تھی۔ یہ ایک ذاتی مکتوب تھا جو امامؒ نے اپنے قریبی عزیز اور معاصرمولانا محمد احسن نانوتویؒ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا۔مولانا احسن صاحب کو معقولات اور علم کلام پردسترس حاصل تھا لہذاامام نانوتویؒ نے فلسفہ دین اور کلامیات کے امتزاج کے ساتھ یہ جواب لکھاتھا اور اس بات کا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ مولانا محمد احسن صاحب کو اس کے عنوانات اور بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں کوئی دشواری ہوگی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ اس مکتوب کی بلندپایہ علمی بحث مولانااحسن صاحب کے ہی شایا ن شان تھی۔مولانا اس مکتوب سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے امام نانوتویؒ کو مطلع کئے بغیرتحذیر الناس کے نام سے شائع کردیا۔
اس کے شائع ہونے کے بعد چند ممتاز علماء نے (اہل علم کے اصول کے مطابق) تحذیر الناس کے مندرجات کی تحقیق کے لئے خود بانئ دارالعلوم دیوبند امام محمد قاسم النانوتویؒ کو مکتوب لکھے۔جن کے تشفی بخش جواب لکھ کر امام نانوتویؒ نے ان کو مطمئن کیا اور ان جید علماء نے تحذیر الناس کے بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں ہوئی غلطی کے لئے معذرت بھی کی۔مگر ایک مختصر سا طبقہ جو مولوی عبدالقادربدایونی کی سرکردگی میں کام کر رہا تھااور ولی اللہی مکتب فکر اور اس حلقے کے علماء کی تردید و مخالفت میں سرگرم عمل تھا اس نے امام نانوتویؒ کے خلاف بھی اپنی روش پر چلتے ہوئے انتہائی خیانت ومنافقت کے ساتھ غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا۔امام نانوتویؒ کے خلاف فتوے اور رسالے شائع کئے ۔ان فتووں اور رسالوں کا علم اور دیانت سے دور کا بھی رشتہ نہیں ۔ بعد میں اسی مسئلے کو انتہائی خیانت کے ساتھ جاہل اور بدعتی فرقہ رضاخانیہ بریلویہ کے بانی مولوی احمدرضا خان بریلوی نے علماء دیوبند کے خلاف تکفیری مہم کے لئے استعمال کیا۔ حالانکہ تحذیر الناس ختم نبوت پر اب تک کی سب سے معرکۃ الآراء تصنیف ہے ،جس کے بعد تکمیل نبوت کے عنوان پر کسی بحث کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لیکن مخالفین اور معاندین جو امام نانوتویؒ کے بلند پایہ علمی طریقۂ بحث سے بالکل ناواقف ہیں اور اس مقامِ علم سے کوسوں دور ہیں انہوں نے امام ؒ کی اس معرکۃ الآراء تصنیف کو بالکل الٹا معنی پہنا کر امامؒ پر نعوذ باللہ ختم نبوت کے انکار کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور منافقانہ الزام عائد کیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۱۱۔تحفہ لحمیہ(طباعت اول بلاسنہ،طباعت دوم۱۳۱۲ ؁ھ)
۱۲۔تصفیۃ العقائد(طباعت اول۱۲۹۸ ؁ھ)
۱۳۔تقریر دل پزیر(طباعت اول۲۹۹ ؁۱ھ)
۱۴۔تقریر ابطال جزو لایتجزیٰ: یہ جزء لایتجزیٰ کے ابطال پر حضرت الامامؒ کی اس تقریر کی ترجمانی ہے جو امامؒ نے رامپورمیں ایک جلسہ عام میں کی تھی۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے یہ تقریر اس جلسے میں حاضر کسی شخص سے سنی تھی اور اس کو اپنے الفاظ میں مرتب کر کے صدرا کے حاشیے پر شائع کر دیا تھا۔
۱۵۔جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول۱۲۹۶ ؁ھ)
۱۶۔براہین قاسمیہ توضیح، جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول ۱۳۸۴ ؁ھ)
۱۷۔حجۃ الاسلام(طباعت اول۱۳۰۰ ؁ھ)
۱۸۔تتمہ حجۃ الاسلام(طباعت اول۱۲۸۹ ؁ھ)
۱۹۔حق الصریح فی اثبات التراویح(طباعت اول بلا سنہ)
۲۰۔قبلہ نما(طباعت اول۱۲۹۸ ؁ھ)
۲۱۔قصائد قاسمی(طباعت اول۱۳۰۹ ؁ھ)
۲۲۔گفتگوئے مذہبی(طباعت اول۱۲۹۳ ؁ھ)
۲۳۔مباحثہ شاہ جہاں پور(طباعت اول۱۲۹۹ ؁ھ)
۲۴۔مصابیح التراویح(طباعت اول۱۲۹۰ ؁ھ)
۲۵۔مناظرہ عجیبہ(طباعت اول بلاسنہ)
۲۶۔ہدیۃ الشیعہ(طباعت اول۱۲۸۴ ؁ھ): اس معرکۃ الارا تصنیف میں حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ نے کتب حدیث کے مراتب و طبقات اور اصول تنقید کی تحقیق امام الہند شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ کے نظریات کی روشنی میں فر مائی ہے۔

امام نانوتویؒ کے غیر مطبوعہ نادر مخطوطات:

۱۔اوراق زائد قبلہ نما(تاریخ کتابت ۱۳۱۴ھ ؁): قبلہ نماعلم کلام کے موضوع پر امام نانوتویؒ کا نادراور انتہائی دقیق علمی شاہکارہے،اس پوری کتاب کو اپنی بلندپایہ علمی بحث کے سبب امام نانوتویؒ کی مشکل ترین تصنیف تسلیم کیا جاتاہے۔اوراق زائد قبلہ نمایاقبلہ نما کے ایک باب کو انتہائی مشکل ہونے کے سبب طبع ہونے سے قبل ہی مصنف موصوف یعنی امام نانوتویؒ اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اول حضرت مولانایعقوب نانوتویؒ نے شائع کرنے سے روک دیا تھا۔یہ نسخہ پہلے پھلاودے میں محفوظ تھا اور بعد میں مولانا عبدالغنی صاحبؒ کے نبیرگان ڈاکٹر سید محمد خالدؒ اور انکے برادر محترم سید مطلوب صاحب ؒ کی عنایت سے ’مفتی الٰہی بخش اکیڈمی‘کاندھلہ میں موجود ہے۔
۲۔تنویر النبراس علی من انکر تحذیر الناس(کتابت۱۳۰۹ ؁ھ)امام نانوتویؒ کے عظیم علمی شاہکار تحذیر الناس پر جب ہرکس وناکس نے اپنی رائے دینی شروع کردی تھی تو انہیں میں ایک قول فصیح نام سے رسالہ مولوی ٖفصیح الدین (حلقۂ بدایوں)نے تحذیر کے مندرجات پر بطور بحث لکھا تھا۔ امام نانوتویؒ نے قول فصیح کے جواب میں اسی پر اپنا جواب درج فرما یا تھا۔ اسے تنویر النبراس یا رد قول فصیح کے نام سے جانا جاتاہے۔یہ غیر مطبوعہ ہے اور اس وقت پھلاود ے میں محفوظ ہے۔ امام نانوتوی ؒ کی خود تصنیف کردہ تحذیر کی شرح مناظرۂ عجیبہ منظر عام پر موجود ہے۔
۳۔رسالہ تقریر حدیثفضل العالم کفضلی علی ادناکم(کتابت بلاسنہ) : امام نانوتویؒ کے اس رسالے کا سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیزکے ایک خط میں ذکر آیا ہے۔ مکتوب بنام حکیم ضیاء الدین میں حاجی صاحبؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’مکرر یہ کہ وہ رسالہ کہ جس میں مولوی محمد قاسم صاحب کی تقریر در تفسیر حدیث فضل العالم کفضلی علی ادناکمتھی، وہ مجھ سے گم ہو گیا ،اس رسالے کی نقل کراکر ضرور بھیج دینا۔‘‘
۴۔مکتوبات قاسمی قلمی(مرتب مولانا عبدالغنی پھلاودہ،کتابت۱۳۲۲ ؁ھ)

عظیم قاسمی علمی میراث:

حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خصوصی کرم و فضل سے نوازا تھا۔ علم وعمل کے میدان میں ایک عظیم الشان مجدد کی حیثیت سے اسلامی دنیا آپ کوہمیشہ یاد رکھے گی۔ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اسلامی علمی وراثت کے محافظ ہونے کے سبب حضرت الامامؒ کا مقام یگانہ ہے،دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم اسلامی ادارے اور اس کے علاوہ کئی اور دینی مدارس کے بانی ہونے کی حیثیت سے امامؒ کی فوقیت مسلم ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی امامؒ کو اللہ تعالی نے ایک اور عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور وہ ہے آپ کے نہایت ہی لائق و فائق علمی صلبی ورثاء۔آپ کے بعد آپ کے مسند علم پر جلوہ افروز ہونے والے آپکے لائق و فائق فرزند ارجمند حافظ الدین و الملۃمولانا محمد احمد صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی لیاقت اور نسبت کے ذریعے دارالعلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔حا فظ صاحب ؒ نے دارالعلوم دیوبند کے مسند اہتمام پر ۴۰ سال تک جلوہ افروز رہتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کی تمام ابتدائی عمارات کی تکمیل فرمائی۔ اسکے علاوہ حافظ صاحبؒ صوبۂ دکن کے مفتئ اعظم کے عہدے پر بھی جلوہ افروز رہے۔اور امام نانوتوی ؒ کے اس عظیم المرتبت فرزند کو نظام حیدرآباد کے ذریعے ’شمس العلماء‘ کے بھاری بھرکم خطاب سے بھی نوازا گیا جسے انہوں نے قبول نہیں فرمایا۔ امام نانوتویؒ کے پوتے اور حاٖفظ الدین والملۃ ؒ کے فرزند رشید حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے علمی حلقے میں عظیم الشان مقام حاصل کیا۔امام نانوتویؒ کے اس عظیم اور مقرر بے مثال پوتے کو دارالعلوم دیوبند کا ’معمار ثانی‘ کہا جاتا ہے۔امام نانوتویؒ کے علوم کے شارح ہونے کے ساتھ مسلکِ دیوبند کے سب سے عظیم ترجمان کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلامؒ کا مقام مسلم ہے۔ علما ئے دیوبند میں حکیم الاسلام ؒ کو عظیم الشان مقرر تسلیم کیا جاتا ہے۔ خطبات حکیم الاسلام جو کہ حکیم الاسلامؒ کی تقار یر کا مجموعہ ہے اور اسکے علاوہ آپکی دیگر تصانیف اسرار شریعت کا خزانہ ہونے کے علاوہ مسلک علمائے دیوبند کی ترجمان ہیں۔حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب ؒ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت تک یعنی ۵۳ سال تک منصب اہتمام پر فائز رہے۔ حضرت حکیم الاسلام ؒ نے دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دارالعلوم دیوبند کی خدمات سے اہل علم کو متعارف کرایا وہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے شرعی معاشرتی قانون کے تحفظ کا سب سے عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی تاسیس حکیم الاسلامؒ کاامت مسلمہ پر وہ عظیم احسان ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
علاوہ ازیں امام نانوتویؒ کے پڑپوتوں اور حکیم الاسلام ؒ کے دو فرزندوں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور آپ کے براد ر محترم حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم علوم حدیث و تفسیر میں اپنا اہم مقام رکھتے ہیں ۔اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحر بیکراں جوامام نانوتوی ؒ کے ہاتھوں سے جار ی ہوا تھا اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھااسے ان کے انتہائی لائق و فائق علمی ورثاء نے جاری و روشن رکھا، اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ وتعالی نے خانوادۂ علمیہ قاسمیہ کو ناپید ہو چکے خانوادۂ ولی اللہی کا متبادل بناکر ہندوستان کے مسلمانوں کاناخدا بنادیا۔
وفات:
محض ۴۷ سال کی قلیل عمر اور عالم جوانی میں گلشن ولی اللہی کے اس بطل جلیل وعظیم مجدد ملت نے ۱۸۸۰ ؁ء مطابق ۱۲۹۷ ؁ھ میں ضیق النفس کے مرض میں مبتلا ہوکر داعی اجل کو لبیک کہا۔امام محمد قاسم نانوتویؒ کی وفات پر ہندوستان میں صف ماتم بچھ گیا۔آپ کے معاصرین نے آپ کی وفات کو ایک مشفق باپ کی وفات کے مترادف قراردیا جس کے بعد اس کی اولاد ہمیشہ کے لئے یتیم ہو جاتی ہے۔ آپ کی تدفین آپ کے ہی بوئے ہوئے شجر طوبی دارالعلوم دیوبند کے قرب وجوار میں عمل میں آئی۔یہی قبرستان جہاں آپ عین سنت کے مطابق ایک کچی قبر میں آسودۂ خواب ہیں ’قبرستان قاسمی‘ کے نا م سے مشہور ہے اور سیکڑوں صلحاء،علماء و دانشوران ملت نیز عام مسلمانوں کی ابدی آرام گاہ ہے۔
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
اس ہند کی زمین پہ احسان مصطفی
گونجے گا چار کھونٹ اس نانوتوی کا نام
بانٹا ہے جس نے بادۂ عرفان مصطفی
شورش کاشمیری