• Print

مولانا حافظ محمد احمدؒ نوراللہ مرقدہ

۱۸۹۳  -  ۱۹۲۸


حیات اور تعلیم

حافظ صاحبؒ حضرت نانوتوی قدس سرہ کے فرزند رشید تھے، ۱۲۷۹ھ مطابق ۱۸۶۲ء میں نانوتہ میں پیدا ہوئے، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد والد ماجد نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گلاؤٹھی (ضلع بلندشہر) بھیج دیا، گلاؤٹھی میں حضرت نانوتویؒ کا قائم کیا ہوا مدرسہ منبع العلوم تھا۔ حضرت مولانا عبداللہ انبہٹوی اس مدرسہ میں  مدرس تھے، بعدازاں مزید تعلیم کے لئےمراداباد کے مدرسہ شاہی میں بھیجے گئے، یہاں حضرت نانوتویؒ کے شاگردِرشیدمولانا احمد حسن امروہیؒ پڑھاتے تھے، ان سے مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھنے کے بعد دیوبند تشریف لائے، اور حضرت شیخ الہند کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سے ترمذی شریف کے چند سبق پڑھے، دوروۂ حدیث گنگوہ پہنچ کر حضرت گنگوہی کے حلقۂ درس میں پورا کیا اور وہیں جلالین اور بیضاوی پڑھی۔

دارالعلوم میں آپ کی خدمات

۱۳۰۳ھ مطابق ۱۸۸۵ء میں بحیثیت مدرس دارالعلوم میں تقررہوا اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھانے کی نوبت آئی، ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں جب حضرت حاجی محمد عابدؒ اہتمام سے مستعفی ہوئے تو یکے بعد دیگرے دو مہتمم مقرر ہوئے(حاجی فضل حق دیوبندی اور مولانا محمد منیر نانوتوی)، مگر ایک ایک سال سے زیادہ اہتمام نہ کرسکے، ہر سال کے تغیرات کی وجہ سے دارالعلوم کے نظام میں اختلال پیدا ہونے لگاتو ۱۳۱۳ھ مطابق ۱۸۹۵ء میں حضرت گنگوہی نے اہتمام کے لئے حضرت مولانا حافظ احمد صاحب کا انتخاب فرمایا، حافظ صاحب نہایت منتظم اور صاحبِ اثرووجاہت تھے، چنانچہ وہ بہت جلد دارالعلوم کے انتظام پر قابو یافتہ ہوگئے، اور تقرر کے وقت ان سے جو توقعات قائم کی گئی تھیں بدرجۂ اتم ان کے اہل ثابت ہوئے.
حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ کے زمانۂ اہتمام میں دارالعلوم نے غیر معمولی ترقی کی، جب انہوں نے عنانِ اہتمام اپنے ہاتھ میں لی تھی تو دارالعلوم کی آمدنی کا اوسط ۵ – ۶ ہزار روپئے سالانہ تھا،آپ کے عہد میں یہ اوسط ۹۰ ہزار تک ترقی کرگیا، اسی طرح طلبہ کا اوسط دوڈھائی سو سے ترقی کرکے تقریباً نو سو تک پہنچ گیا، اس وقت کتب خانے میں پانچ ہزار کتابیں تھی، آپ کے زمانے میں کتابوں کی تعداد ۴۰/ہزار تک پہنچ گئی، ۱۳۱۳ھ مطابق ۱۸۹۵ء تک عمارت دارالعلوم کی مالیت ۳۶/ہزار روپئے تھی، آپ کے عہد میں یہ مالیت ۴/لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
دارالحدیث کی عظیم الشان عمارت جو اپنی نوعیت کی ہندوستان بھر میں پہلی عمارت ہےآپ ہی کے عہد میں تیار ہوئی، جدید دارالاقامہ کا آغاز اور مسجد و کتب خانے کی تعمیر بھی حافظ صاحب کے زمانے کی یادگاریں ہیں، ۱۳۲۸ھ مطابق ۱۹۱۰ء کے اس عظیم الشان جلسۂ دستاربندی کی یاد اب تک لوگوں کے قلوب میں تازہ ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد فضلاء کی دستار بندی ہوئی تھی۔
شروع سے درس و تدریس کا جو مشغلہ قائم ہوگیا تھا وہ زمانۂ اہتمام میں بھی کبھی بند نہ ہوا، مشکوٰۃ المصابیح، جلالین شریف، صحیح مسلم، ابن ماجہ، مختصرالمعانی، رسالہ میرزاہد وغیرہ کتابیں نہایت شوق سے پڑھاتے تھے، تقریر نہایت صاف و مربوط اور سُلجھی ہوئی ہوتی تھی، اپنے والد ماجد کے خاص علوم اور مضامین پر کافی عبور تھا۔

آپ کی خصوصیت

حافظ صاحبؒ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دارالعلوم کے مشکل سے مشکل مہم کو آسانی سے سُلجھادیتے تھے۔  یہ بھی آپ ہی کے زمانے کی خصوصیت ہے کہ دومرتبہ صوبہ متحدہ کے گورنر دارالعلوم میں آئے، دارالحدیث کی مجوزہ جگہ پر شہر کے پانی کا گندہ نالہ بہتاتھا، اس کے سبب سے دارالحدیث کی تعمیر میں رکاوٹ پڑی ہوئی تھی، نیز گندے نالے کے قرب کے باعث دارالعلوم کی آب و ہوا بھی خراب رہتی تھی، اکابردارالعلوم کی پیہم کوششوں کے باوجود مقامی حکام نالے کے ہٹائے جانے پر آمادہ نہ تھے، حضرت حافظ صاحبؒ نے گورنر کو دعوت دے کر اس مشکل کا حل نکال لیا، چنانچہ صوبائی گورنمنٹ کے حکم سے سرکاری مصارف پر گندہ نالہ ہٹادیا گیا۔

وفات

نظام دکن نے حافظ صاحب کو ریاست حیدراباد میں مفتئ اعظم کے عہدے پر مقرر فرمایا تھا، حکومت آصفیہ کے اس سب سے بڑے دینی منصب پر آپ ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۹۲۲ء سے ۱۳۴۴ھ مطابق ۱۹۲۵ء تک فائز رہے،  حیدراباد کے زمانۂ قیام میں آپ نے نظام حیدراباد کو دارالعلوم میں آنے کی دعوت دی تھی، جو منظور کرلی گئی تھی، پروگرام یہ تھا کہ نظام جب دہلی جائیں گے تو دارالعلوم کو بھی دیکھیں گے، ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں نظام کے دہلی آنے کی توقع تھی، وعدے  کی یاددہانی کے لئے آپ حیدرآباد تشریف لے گئے، جس وقت آپ حیدرآباد کا قصد فرمارہے تھے، تو طبیعت ناسازتھی، ضعف پیری اورمسلسل علالت نے بہت کمزور کردیا تھا، مگر دارالعلوم کے مفاد کے لئے اپنی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے حیدرآباد روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، پہلے تو انتظار رہا کہ طبیعت سنبھلے تو نظام سے ملاقات کی جائے، مگر جب مرض دن بدن بڑھتا ہوا معلوم ہوا تو متوسلین اور رفقاء سفر کی رائے قرار پائی کہ دیوبند واپس لے جایا جائے، چنانچہ واپسی کے قصد سے آپ حیدرآباد سے روانہ ہوگئے، مگر ابھی ٹرین حیدرآباد کی حدود میں ہی تھی کہ نظام آباد اسٹیشن پر حافظ صاحب جان جان آفریں کے سپرد کرکے'من مات فی السفر فھو شہید' میں داخل ہوگئے، یہ ۳/جمادی الاولی ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے، وفات سے قبل زبان پر ذکراللہ جاری تھا، ۲۹/کے عدد پر عقد انامل تھا کہ اللہ کے لفظ کے ساتھ روح پرواز کرگئی۔
نظام آباد اسٹیشن پر نعش اتارکر جنازہ تیارکیا گیا، متعلقین اور نظام دکن کو تار کے ذریعہ اطلاع دی گئی، نظام کا جواب آیا کہ حافظ صاحب کا جنازہ حیدرآباد لایاجائے، نظام آباد اور حیدرآباد میں متعدد مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی، اگلے دن ۴/جمادی الاولی کو سرکاری مصارف پر ایک مخصوص قبرستان میں جو 'خطۂ صالحین ' کے نام سے موسوم ہے ان کو سپرد خاک کیا گیا، نظام دکن نے تعزیت کرتے ہوئے نہایت تأسف کے ساتھ یہ پُراثر جملہ فرمایا: 'افسوس وہ مجھے لینے آئے تھے مگر خود یہیں رہ گئے'۔
حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ نے اسلام اور مسلمانوں کی دارالعلوم کے ذریعہ جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے پیش نظر ان کی وفات کو دارالعلوم  اور مسلمانوں کا زبردست نقصان تصور کیا گیا، اور ہندوستان کے طول و عرض میں دیوبندی اور غیردیوبندی جماعتوں میں بے شمار تعزیتی جلسے اور ایصال ثواب کے اجتماعات کئے گئے۔
حافظ صاحبؒ نے ۴۵/سال دارالعلوم کی خدمات انجام دیں ، ابتدائی ۱۰/سال تعلیم و تدریس میں گزرے اور ۳۵/سال اہتمام کے فرائض انجام دئیے۔