• Print

حضرت مجددالملت حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ اپنی مثنوی زیروبم میں حاجی سید محمد عابد قدس سرہ کے بارے میں  فرماتے ہیں کہ : 
عامل کامل، ولی، مردِ خدا                   پائے او در پائے فخرِ انبیاء
ہم جمالی، ہم جلالی، شانِ او                                       کانِ حلم و مخزنِ خُلقِ نکو
نقش و تعویذش مثالِ نقشِ قدر                                      فیضِ او بر خاص و عامی مثل بدر
  

حاجی سید محمد عابد دیوبندی قدس سرہ

دورِ اہتمام: ۱۸۶۶-۱۸۶۷، ۱۸۶۹-۱۸۷۱، ۱۸۹۰-۱۸۹۲۔


ولادت اور حیات
روحانیت اور دینداری
تحریکِ دیوبند
انتظامِ دارالعلوم دیوبند
وصال

 ولادت اور حیات

حاجی سید محمد عابد کو لوگ حاجی سید عابد حسین کے نام سے بھی جانتے تھے۔  آپ کی پیدائش دیوبند کے ایک سادات گھرانے میں ۱۸۳۴ء (۱۲۵۰ھ) میں ہوئی۔ قرآن شریف کے بعد آپ نے فارسی پڑھی، اور پھر علوم دینیہ کی تعلیم کے لئے دہلی چلے گئے، زمانہء تعلیم میں تصوف کا شوق ایسا  دامن گیر ہوا کہ علوم کی تکمیل نہ کرسکے ، میاں جی کریم بخش رامپوریؒ اور حضرت حاجی امداداللہ مکیؒ سے شرفِ خلافت حاصل کیا۔ 

حاجی محمد عابد صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے قیام کی تحریک میں حضرت امام قاسم النانوتویؒ کی مدد کی۔ امام نانوتویؒ کا خواب تھا کہ ایک ایسا اعلی درجہ کا مدرسہ قائم کیا جائے  جس میں علوم دینیہ کی تعلیم جامع اور منظم طریقہ پر فراہم کی جائے۔ گرچہ حاجی سید محمد عابدؒ شروع میں اس تحریک کی حمایت میں  نہیں تھے، لیکن جب امام قاسم النانوتویؒ کا اصرار بڑھا اورعلوم دینیہ کے لئے ایک بڑے مدرسے کے قیام کے تئیں  ان کے جوش و خروش کو دیکھا تو حاجی محمد عابد صاحب ان کی تحریک کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوگئےاور بانیین میں آپ کا نام بھی شامل ہوگیا۔

روحانیت اور دینداری

حاجی محمد عابدصاحب دیوبند کے نہایت متقی ، پرہیزگار اور صاحبِ اثر بزرگ تھے، تعویذات اور عملیات کے فن میں دُور دُور تک شہرت تھی، چونکہ آپ بھی بانیین دارالعلوم دیوبند میں سے تھے اس لئے دارالعلوم کا سب سے پہلا نظام بھی آپ کی نیک اور ماہر قیادت کی زیرِ نگرانی وجود میں آیا۔ 

حاجی صاحب کاچھتہ کی مسجد(دارالعلوم کی پہلی درسگاہ) میں ۶۰/ سال تک قیام رہا، مشہور ہے کہ تیس سال تک آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، نمازِ تہجد کا ایسا التزام تھا کہ ۶۰/سال تک قضاء کی نوبت نہیں آئی، صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، رشدوہدایت اور تذکیر و تزکیۂ قلوب کے علاوہ آپ کو 'فن عملیات' میں زبردست ملکہ حاصل تھا، لوگ دوردورسے تعویذات و عملیات کے لئے حاضر ہوتےاور دامنِ امید گوہرِ مراد سے بھرکر لوٹتےتھے، مختلف کاموں کی کثرت کےباوجود ضبطِ اوقات کا بے حد التزام تھا، اور ہر کام ٹھیک اپنے وقت پر انجام پاتا تھا۔ 

تعویذات کے ضرورت مند بعض اوقات حد سے زیادہ پریشان کرتے مگر اخلاق و تواضع کا یہ عالم تھا کہ کبھی تُرش رو ہوتے نہیں دیکھا گیا، اتباعِ سنت کا غائت اہتمام تھا، ان کا مقولہ ہے کہ 'بے عمل درویش ایسا ہے جیسے سپاہی بے ہتھیار، درویش کو چاہئے کہ اپنے آپ کو چُھپانے کے لئے عامل ظاہر کردے'۔ وہ طریقۂ چشتیہ صابریہ کے بزرگ اور زُہد و ریاضت کا مجسمہ تھے۔ 

ایک مرتبہ آپ کومعلوم ہوا کہ مریدین میں حاجی محمد انور دیوبندی ؒ نے نفس کُشی کے طور پر کھانا پینا قطعاً ترک کردیا ہے ، آپ نے بتاکید ان کو لکھاکہ 'یہ امر سنت کے خلاف ہے ، بطریقِ مسنون کھانا پینا ضرور چاہئے، خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو'۔ 

سوانح قاسمی میں سوانح مخطوطہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'اہلِ دیوبند کو آپ سے کمال درجہ کی عقیدت  ہے، آپ کی ذات فیض آیات سے خلائق کو بہت طرح کا نفع حاصل ہے '،

'غیر مذہب والے بھی آپ کے تعویذوں کے معتقد ہیں ، گھر بار ، زمین، باغ جس قدر آپ کی ملک میں تھا سب کا سب راہِ خدا میں دے کر محض خدا پر تکیہ کیا ہوا ہے'۔ 

اوقات ومعمولات کے ضبط و نظم کا بڑا اہتمام رکھتے تھے، مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ فرمایا کرتے تھے کہ "جاننے والا ہر وقت یہ بتاسکتا ہے کہ اِس وقت حاجی صاحب فلاں کام میں مشغول ہوں گے، اگر کوئی جاکر دیکھے تو اُسی کام میں ان کو مشغول پائے گا"۔  

اشرف السوانح میں حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ کا ایک ملفوظ نقل کیاگیا ہے کہ" میں حاجی صاحب کو بزرگ تو سمجھتا تھا مگر یہ خیال نہ تھا کہ وہ شیخ اور مربّی بھی ہیں، لیکن اپنے ایک باطنی اشکال کے دوران ان کے جوابِ شافی سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ کامل درجہ کے شیخ اور مُربّی تھے"۔

تحریکِ دیوبند

دارالعلوم دیوبند کے لئے عوامی چندے کی تحریک کا آغازآپ ہی نے فرمایا تھا، حاجی فضلِ حقؒ نے حضرت نانوتویؒ کی سوانح مخطوطہ میں لکھا ہے کہ 'ایک دن بوقتِ اشراق حضرت حاجی سید محمد عابد سفید رومال کی جھولی بناکراور اس میں تین روپئے اپنے پاس سے ڈال کر چھتہ کی مسجد سے تنِ تنہا مولوی مہتاب عل مرحوم کے پاس تشریف لائے، مولوی صاحب نے کمالِ کشادہ پیشانی سے چھہ روپئے عنایت کئے اور دعاء کی، اور بارہ روئے مولوی فضل الرحمن صاحب نے اور چھہ روپئے اس مسکین (سوانح مخطوطہ کے مصنف حاجی فضل حق صاحب) نے دئے، وہاں سے اٹھ کر مولوی ذولفقار علی سلمہ کے پاس آئے ، مولوی صاحب ماشاء اللہ علم دوست ہیں، فوراً بارہ روپئے دئے، اور حسنِ اتفاق سے اس وقت سید ذوالفقار علی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے، ان کی طرف سے بھی بارہ روپئے عنایت کئے، وہاں سے اٹھ  کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہونچے، دوسو روپئے جمع ہوگئے اور شام تک تین سو روپئے، پھر تو رفتہ رفتہ چرچا ہوا اور جو پھل پھول اس کو لگے وہ ظاہر ہیں، یہ قصہ بروزجمعہ دوم ماہ ذی قعدہ ۱۲۸۲ھ میں ہوا۔

انتظامِ دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ تین مرتبہ اہتمام آپ کے سپرد ہوا، پہلی مرتبہ یومِ تاسیس سے ۱۸۶۷ءمطابق ۱۲۸۴ھ تک ، دوسری مرتبہ ۱۸۶۹ء مطابق ۱۲۸۶ھ سے ۱۸۷۱ء مطابق ۱۲۸۸ تک، اور تیسری مرتبہ ۱۸۹۰ء مطابق ۱۳۰۸ھ سے ۱۸۹۲ء مطابق ۱۳۱۰ھ تک، مجموعی طور پر یہ مدت دس سال ہوتی ہے۔ 

جامع مسجد دیوبند کی تعمیر بھی آپ ہی کی جدو جہد اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، آخر میں کثرتِ مصروفیت کے باعث آپ اہتمام سے مستعفی ہوگئے تھے، ان کے اثرووجاہت سے دارالعلوم کو کافی فوائد حاصل ہوئے اور اس کا ہر قدم ترقی کی جانت گامزن رہا۔  

وصال
آپ نےپنجشنبہ
۲۷/ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۹۱۲ء  کو ۸۱/سال کی عمر میں وفات پائی ، "مدارالمہام بہشت بریں" مادہ سن وفات ہے ۔ تذکرۃ العابدینمیں آپ کے تفصیلی حالات مذکور ہیں۔