• Print

مسلک علماء دیوبند  (اہل سنت والجماعت)


علماءدارالعلوم وقف دیوبند اپنے مسلک اور دینی رخ کے اعتبار سے اہل سنت والجماعت ہیں ، اور مذہبِ امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں، اور مشرب میں دارالعلوم کے بانیین حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم النانوتوی اور امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کو اپنا مقتدی سمجھتے ہیں۔

» علماء دیوبند کا دینی رخ
» علم شریعت
» محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے خاص شغف
» پیروئ طریقت
» فقہ حنفی
» کلامی ماتریدیت
» زیغ و ضلالت کے خلاف دفاع
» قاسمی و رشیدی مذاق و مزاج

» اہل سنت والجماعت کا تعارف

 

دینی رخ

جہاں تک دارالعلوم وقف دیوبند  اور اس کے بڑوں کے دینی رخ کاتعلق ہے تو اسےنہایت ہی بلیغ اور جامع انداز میں حضرت حکیم الاسلام مولاناقاری محمد طیب صاحبؒ (مہتم دارالعلوم دیوبند) نے اپنے رسالہ'مسلک علماء دیوبند' میں واضح کردیاہے۔جس کا خلاصہ کم و بیش  انہیں کے الفاظ میں  یہ ہے:


علمی حیثیت سے یہ ولی اللہی جماعت مسلکاً اہل السنۃ والجماعۃ ہے جس کی بنیاد قرآن کریم، سنت ، اجماع اور قیاس پر قائم ہے، اس کے نزدیک  تمام مسائل میں اولین درجہ  نقل و روایات اور آثارِسلف کو حاصل ہے جس پر کہ پورے دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ اس لئے قرآن و سنت کےحقیقی  معانی تک رسائی کے لئے محض قوت مطالعہ   کافی نہیں بلکہ اسلاف کے اقوال  اور ان کے متوارث مذاق کے دائرے میں محدود رہ کر نیز اساتذہ و شیوخ کی صحبت و ملازمت اور تعلیم و تربیت ہی سے ان کی مرادات متعین ہوسکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ عقل و درایت اور تفقہ فی الدین بھی اس کے نزدیک فہم کتاب و سنت کا ایک بڑا اہم جزو ہے، وہ روایات کے مجموعہ سے شارع علیہ السلام کی غرض و غایت کو سامنے رکھ کر تمام روایات کو اسی کے ساتھ وابستہ کرتا ہے ، اور سب کو درجہ بدرجہ اپنے اپنے محل پر اس طرح چسپاں کرتا ہے کہ وہ ایک ہی زنجیر کی کڑیاں دکھائی دیں ، اس لئے جمع  بین الروایات اور تعارض کے وقت تطبیق ِ احادیث اس کا خاص اصول ہے، جس کا منشأ یہ ہے کہ وہ کسی ضعیف سے ضعیف روایت کو بھی چھوڑنا اور ترک کردینا نہیں چاہتا، جب تک کہ وہ قابل احتجاج ہو، اسی بناء پر اس جماعت کی نگاہ میں نصوص شرعیہ میں کہیں بھی تعارض اور اختلاف محسوس نہیں ہوتا، بلکہ سارے کا سارا دین تعارض اور اختلاف سے مبرّأ رہ کر ایک ایسا گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں ہر رنگ کے علمی و عملی پھول اپنے اپنے موقع پر کھِلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ بطریق اہل سلوک جو رسمیات اور رواجوں اور نمائشی حال و قال سے مبرّأ اور بَری ہے، تزکیہء نفس اور اصلاح باطن بھی اس کے مسلک میں ضروری ہے، اس نے اپنے منتسبین کو علم کی رفعتوں سے بھی نوازا اور عبدیت و تواضع جیسے انسانی اخلاق سے بھی مزیّن کیا۔ اس جماعت کے افراد ایک طرف علمی وقار ، استغناء (علمی حیثیت سے) اور غناء نفس (اخلاقی حیثیت سے) کی بلندیوں پر فائز ہوئے، وہیں فروتنی خاکساری اور ایثارو زُہد کے متواضعانہ جذبات سے بھی بھرپور ہوئے ، نہ رعونت اور کبرونخوت کا شکار ہوئے اور نہ ذلتِ نفس اور مسکنت میں گرفتار ، وہ جہاں علم و اخلاق کی بلندیوں پر پہنچ کر عوام سے اونچے دکھائی دینے لگے وہیں عجزونیاز،  تواضع و فروتنی اور لاامتیازی کے جوہروں سے مزین ہوکر عوام میں ملے جلے اور 'کَاَحَدٍ مِنَ النَّاس' بھی رہے،  جہاں وہ مجاہدہ و مراقبہ سے خلوت پسند ہوئے  وہیں مجاہدانہ اور غازیانہ اسپرٹ نیز قومی خدمت کے جذبات سے جلوہ آراء بھی ثابت ہوئے، غرض علم و اخلاق خلوت و جلوت اور مجاہدہ و جہاد کے مخلوط جذبات و دواعی سے ہر دائرہء دین میں اعتدال اور میانہ روی ان کے مسلک کی امتیازی شان بن گئی، جو علوم کی جامعیت اور اخلاق کے اعتدال کا قدرتی ثمرہ ہے ، اسی لئے ان کے یہاں محدث ہونے کے معنیٰ فقیہ سے لڑنے یا فقیہ ہونے کے معنیٰ محدث سے بیزار ہوجانے یا نسبۃ احسانی (تصوف پسندی) کے معنی متکلم دشمنی یا علم کلام کی حذاقت کے معنیٰ تصوف بیزاری کے نہیں بلکہ اس کے جامع مسلک کے تحت اس تعلیم گاہ کا فاضل درجہ بدرجہ بیک وقت محدث، فقیہ، مفسر، مفتی، متکلم، صوفی، (محسِن) اور حکیم و مربی ثابت ہوا،  جس میں زہدوقناعت کے ساتھ عدم تقشف، حیاوانکساری کے ساتھ عدمِ مداہنت، رأفۃ و رحمت کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر، قلبی یکسوئی کے ساتھ قومی خدمت اور خلوت در انجمن کے ملے جلے جذبات راسخ ہوگئے، ادھر علم و فن اور تمام اربابِ علوم و فنون کے بارے میں اعتدال پسندی، حقوق شناسی اور ادائیگئ حقوق کے جذبات ان میں بطور جوہر ِ نفس پیوست ہوگئے، بنابریں دینی شعبوں کے تمام اربابِ فضل و کمال اور راسخین فی العلم خواہ محدثین ہوں یا فقہاء صوفیاء ہوں یا عرفاء ، متکلمین ہوں یا اصولیین، امراء اسلام ہوں یا خلفاء ان کے نزدیک سب واجب الاحترام اور واجب العقیدت ہیں ، جذباتی رنگ سے کسی طبقہ کو بڑھانا اور کسی کو گرانا یا مدح و ذم میں حدود شرعیہ سے بے پروا ہوجانا اس جماعت کا مسلک نہیں، اس جامع طریق سے دارالعلوم سے اپنی علمی خدمات سے شمال میں سائبریا سے لے کر، جنوب میں سماٹرا اور جاوا تک اور مشرق میں برما سے لے کر مغربی سمتوں میں عرب اور افریقہ تک علوم نبویہ کی روشنی پھیلادی جس سے پاکیزہ اخلاق کی شاہراہیں صاف نظر آنے لگیں۔

 

علم شریعت

اس میں عقائدو ایمانیات اور دنیاوی معاملات وغیرہ کے تمام اجزاء شامل ہیں؟ جن کاحاصل ایمان اور اسلام ہے بشرطیکہ  یہ علم سَلَف کے اقوال و تعامل کے دائرے میں محدود رہ کر اُن مستند علمائے دین اور مربیان قلوب کی تعلیم وتربیت اور فیضانِ صحبت و معیت سے حاصل شدہ ہو جن کے ظاہروباطن ،علم وعمل اور فہم و ذوق کا سلسلہ سندِ متصل کے ساتھ حضرت صاحب شریعت علیہ افضل الصلوات والتسلیم تک تسلسل کے ساتھ  پہنچا ہوا ہو۔ خودرائی یا محض کتب بینی یا قوت مطالعہ اور محض عقلی تگ و تاز یا ذہنی کاوش کا نتیجہ نہ ہو، گووہ عقلی پیرایہء بیان اور استدلالی حجت وبرہان سے خالی بھی نہ ہو کہ اس علم کے بغیر حق و ناحق،حلال و حرام،جائزوناجائز، سنت و بدعت اور مکروہ و مندوب میں امتیاز ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے بغیر دین میں خودروتخیلات، فلسفیانہ نظریات اور بے بصرانہ توہمات سے نجات ہی ممکن ہے

 

اتباعِ سنتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 

یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں آپﷺ کی سنتوں  کی پیروی اور ہر حال و قال اور ہر کیفیت ظاہر و باطن میں ادب ِ شریعت برقرار رکھ کر سنت مستمرّہ کا غلبہ کہ اس کے بغیررسوم جہالت، رواجی بدعات و منکرات اور باوجود احوال باطن کے فقدان کے محض رسمی طور پر اہل حال کے وجدی شطحیات و کلمات کی نقالی یا انہیں شریعت کے متوازی ایک مستقل قانون ِ عام کی صورت دے دئے جانے کی بلاسے نجات ممکن نہیں۔

 

پیروئ طریقت

یہ محققین صوفیاء کے سلاسل اور ان کے اصول مجرّ بہ کے تحت (جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں) تہذیب اخلاق، تزکیہ ء نفس اور سلوک ِباطن کی تکمیل ہے کہ اس کے بغیر اعتدالِ اخلاق، استقامتِ ذوق ووجدان ، باطنی بصیرت، ذہنی پاکیزگی اور مشاہدہ ء حقیقت ممکن نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شعبہ اسلام و ایمان کے ساتھ احسان سے متعلق ہے۔

 

فقہی حنفیت 

اسلامی فرعیات  اور قوانین کی اجتہادی تشریحات کا نام فقہ ہے۔ چونکہ اکابر دارالعلوم عامۃً فقہ حنفی پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے فقہی  حنفیت کے معنی اجتہادی فرعیات میں فقہ حنفی کا اتباع اور مسائل و فتاویٰ کی تخریج اور ترویج میں اسی کے اصول تفقہ کی پیروی کے ہیں کہ اس کے بغیر استنباطی مسائل میں ہوائے نفس سے بچاؤ اور تلفیق کے راستے سے مختلف فقہوں میں تلون کے ساتھ دائر سائر رہ کر عوام کی حسب خواہش، نفس مسائل میں قطع و برید یا ہنگامی حالات کی مرعوبیت سے ذہنی قیاس آرائی اور لاعلمی کے ساتھ مسائل میں جاہلانہ تصرفات واختراعات سے اجتناب ممکن نہیں ، ظاہر ہے کہ یہ شعبہ اسلام سے متعلق ہے۔

 

کلامی ماتریدیت

یعنی اعتقادات میں فکر صحیح کے ساتھ طریق اہل سنت والجماعت اور اشاعرہ و ماتریدیہ کے تنقیح کردہ مفہومات اور مرتب کردہ اصول و قواعد پر عقائد حقّہ کا استحکام اور قوت یقین کی برقراری، کہ اس کے بغیر زائغین کی شک اندازیوں اور فرق باطلہ کے قیاسی اختراعات اور اوہام وشبہات سے بچاؤ ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ یہ شعبہ ایمان سے متعلق ہے۔

 

دفاع زیغ و ضلالت

یعنی متعصب گروہ بندوں اور اربابِ زیغ کے اٹھائے ہوئے فتنوں کی مدافعت، مگر وقت کی زبان و بیان میں اور ماحول کی نفسیات کے شعور کے ساتھ وقت ہی کے مانوس وسائل کے ذریعہ جس سے اتمامِ حجت ہو، نیز مجاہدانہ روح کے ساتھ ان کے استیصال کی مساعی کہ اس کے بغیر ازالہء منکرات اور معاندین کی دست بُرد سے شریعت کا تحفظ ممکن نہیں، اس میں ردّ شرک و بدعت، ردّ الحاد و دہریت، اصلاح ِ رسوم جاہلیت اور حسبِ ضرورت تحریری یا تقریری مناظرے، اور تغییر منکرات سب شامل ہیں، ظاہرہے کہ یہ شعبہ اعلاء کلمۃ اللہ بفحوائےلتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا اور اظہارِ دین بفحوائےلیظہرہ علی الدین کلہ اور عام نظم ملت سے متعلق ہے۔

 

ذوقِ قاسمیت و رشیدیت

پھر یہی پورا مسلک اپنی مجموعی شان سے جب دارالعلوم دیوبند کے مربیان اول اور نبض شناسانِ امّت کے روح و قلب سے گزرکر رنمایاں ہوا تو اس نے وقت کے تقاضوں کو اپنے اندر سمیٹ کر ایک خاص ذوق اور خاص رنگ کی صورت اختیار کرلی جسے مشرب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے، چنانچہ دستور اساسی دارالعلوم دیوبند منظور شدہ شعبان ۱۳۶۸ھ میں اس حقیقت کو بایں الفاظ کہاگیا کہ'دارالعلوم دیوبند کا مسلک اہل السنت والجماعۃ حنفی مذہب اور اس کے مقدس بانیوں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مشرب کے موافق ہوگا'۔ 

اس لئے مسلک دارالعلوم دیوبند کے اجزاء ترکیبی میں یہ جز ایک اہم عنصر ہے جس پر دارالعلوم کی تعلیم و تربیت کا کارخانہ چل رہاہے، جو احسان کے تحت آتا ہے، جبکہ اس کا تعلق روحانی تربیت سےہے۔ پس علمِ شریعت، پیروئ طریقت، اتباعِ سنت، فقہی حنفیت، کلامی ماتریدیت، دفاع زیغ و ضلالت اور ذوقِ قاسمیت و رشیدیت اس مسلکِ اعتدال کے عناصر ترکیبی ہیں، جو'سبع سنابل فی کل سنبلۃ مأۃ حبۃ' کا مصداق ہیں، ان سبع سنابل کو اگر شرعی زبان میں ادا کیا جائے تو ایمان، اسلام، احسان اور اظہارِ دین سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ہر نمبر میں اس کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا ہے، انہی دفعات سبعہ کا مجموعہ بہ تفصیلات بالا دارالعلوم دیوبند کا مسلک ہے، غور کیا جائے تو یہ مسلک بعینہ حدیث جبریل کا خلاصہ ہے، جس میں جبریل علیہ السلام کے سوالات پر آنحضرت ﷺ نے اسلام، ایمان، احسان اور دفاعِ فِتن کی تفصیل ارشاد فرمائی ہے، اور اس کے مجموعہ کو تعلیمِ دین فرمایا ہے، اس لئے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ علماء دیوبند کا مسلک حدیثِ جبریل ہے تو بے محل نہ ہوگا۔ 

پھر ان تمام بنیادی عناصر کی بنیاد واساس کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ، اجماع ِامت اور قیاس ِ مجتہد ہے، جن میں سے پہلی دو حجتیں تشریعی ہیں جن سے شریعت بنتی ہے اور آخر کی دوحجتیں تفریعی ہیں جن سے شریعت کھلتی ہے، پہلی دو حجتیں منصوصات کا خزانہ ہیں جو روایتی ہیں، جن کے لئے سندوروایت ناگزیر ہے، اور دوسری دو حجتیں درایتی ہیں جن کے لئے تربیت یافتہ عقل وفہم اور تقویٰ شعار ذہن و ذوق ناگزیر ہے، اس لئے یہ مسلک اعتدال نقلی بھی ہے اور عقلی بھی، روایتی بھی ہے اور درایتی بھی، مگر اس طرح کہ نہ عقل سے خارج ہے نہ عقل پر مبنی، بلکہ عقل و نقل کی متوازن آمیزش سے بایں انداز برپاشدہ ہے کہ نقل اور وحی اس میں اصل ہے اور عقل اس کی ہمہ وقتی خادم اور کارپرداز ہے۔ 

اس لئے علماء دیوبند کا یہ مسلک نہ تو عقل پرست معتزلہ کا مسلک ہے جس میں عقل کو نقل پر حاکم اور متصرف مان کر عقل کو اصل اور وحی یا اس کے مفہوم کو عقل کے تابع کردیا گیاہے، جس سے دین فلسفہء محض بن کر رہ جاتا ہے، عوام کے لئے زندقہ کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں، اور ساتھ ہی سادہ مزاج عقیدتمندوں کا کوئی رابطہ دین سے قائم نہیں رہتا، اور نہ یہ مسلک ظاہریہ کا مسلک ہے جس میں الفاظِ وحی پر جمود کرکے عقل و درایت کو معطل کردیا گیا ہے، اور دین کے باطنی عِلَل و اسرار اور اندرونی حِکم و مصالح کو خیرباد کہہ کر اجتہاد اور استنباط کی ساری راہیں مسدود کر دی گئی ہیں جس سے دین ایک بے حقیقت بلکہ بے معنویت غیرمعقول اور جامد شئ بن کر رہ جاتا ہے، اور دانش پسند اور حکمت دوست افراد کا اس سے کوئی علاقہ باقی نہیں رہتا، پس ایک مسلک میں عقل ہی عقل رہ جاتی ہے اور ایک مسلک میں عقل معطل اور بے کار، ظاہر ہے کہ یہ دونوں جہتیں افراط و تفریط اور 'وکان امرہ فرطاً' کی ہیں، جن سے یہ متوسط اور جامع و معتدل دین بری ہے، اس لئے دین کا جامع عقل و نقل مسلک یہی ہے اور یہی ہو بھی سکتاہے کہ تمام اصول و فروع میں عقل سلیم نقل صحیح کے ساتھ ہمہ وقت وابستہ رہے مگر دین کے ایک مطیع و فرمانبرداراور پیشکار کی طرح کہ اس کی ہر ایک کلی و جزئی کے لئے عقلی براہین، معقول دلائلاورحسی شواہد و نظائر فراہم کرتی رہے، جس سے دین ، امت کے ہر طبقہ کے لئے قابل قبول اور ہمہ جہتی دستور حیات ثابت ہواور یہ امت وَجَعَلنَاکُم اُمَّۃً وَسَطاً کی صحیح مصداق دکھائی دے، یہی مسلک اہل السنت والجماعت کا مسلک کہلاتا ہے، اور علماء دیوبند اس مسلک کے نقیب اور علم بردار ہیں، اسی لئے وہ اس مسلک جامع اور ان تمام دینی علوم کے اجتماع سے بیک وقت مفسّر بھی ہیں اور محدث بھی، فقیہ بھی ہیں اور متکلم، صوفی بھی ہیں اور مجاہدومفکر بھی اور پھر ان تمام علوم کے امتزاج سے ان کا مزاج معتدل بھی ہے اور متوسط بھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے جماعتی مزاج میں نہ غلو ہے نہ مبالغہ، اور اس وسعتِ نظری کی بدولت نہ تکفیر بازی ہے نہ دشنام طرازی، نہ کسی کے حق میں سبّ و شتم ہے نہ بدگوئی، نہ عنادوحسد اور طیش ہے اور نہ غلبہء جاہ و مال اور افراطِ عیش بلکہ صرف بیان مسئلہ ہے اور اصلاح امت یا احقاق حق ہے اور ابطال باطل، جس میں نہ شخصیات کی تحقیر اور بدگوئی کا دخل ہے، نہ مغرورانہ طعن و استہزاء کا، ان ہی اوصاف و احوال کے مجموعہ کا نام دارالعلوم دیوبند ہے، اور اسی علمی و عملی ہمہ گیری سے اس کا دائرہء اثر دنیا کے تمام ممالک تک پھیلاہوا ہے۔

 

اہل السنۃ والجماعۃ کا تعارف

اہل سنت والجماعت کا لقب دو کلموں سے مرکب ہے، ایک السنۃ اور ایک الجماعۃ۔ ان دونوں کے مجموعہ ہی سے علماء دیوبند کا مسلک بنتا ہے، السنۃ کے لفظ سے قانون اور دستور کی طرف اشارہ ہےاور الجماعۃ  کے لفظ سے ذوات و شخصیات اور اصحاب کی طرف اشارہ ہے، جس سے واضح ہے کہ اس مسلک میں اصول و قوانین بغیر ذوات کے اور ذوات بغیر اصول وقوانین کے معتبر نہیں، جبکہ قوانین خود ہی ان ذوات کے ذریعہ ہم تک پہونچے ہوئے ہیں، اور خود ذوات بھی ان قوانین ہی کے ذریعہ پہچانی گئی ہیں اور واجب الاعتبار بنیں۔ 
لہذا ایسا مسلک جس میں ان میں سے کوئی ایک معدوم ہوقابل اعتبار نہیں ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو صرف قرآن مجید دینے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اس نے نبی ﷺ کو بھی مبعوث فرمایاجنہوں نے قرآن مجید کے پیغام کولوگوں تک پہونچایا، اس کے الفاظ کی وضاحت کی،  اس کے معانی کو سمجھایا اور عملاً کرکے دکھایا۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ یہ کہ صرف قرآن مجید کے احکام و قوانین پر عمل کرکے بتایا بلکہ آپ نے ایسی شخصیات تیار کیں جنہوں نے اپنے بل بوتے پر اپنے وقت میں دین شریعت کو سکھایا اور عمل کرکے دکھایا، اور دوسروں کوتربیت دی اوراس کام کے لئے  تیار کیا۔

اسی سنت الٰہی اور سنت نبویﷺ سے یہ واضح ہے کہ اس دین اور اس کی رہنمائی کے لئے صرف قرآن مجیدیا صرف شخصیات ناکافی ہیں، درحقیقت، ان قوانین کے ساتھ ان قوانین کے اساتذہ کا ہونا اور تحریرات کے ساتھ ان کے شارحین کا ہونابھی ضروری ہے۔ کیونکہ علم صرف کتاب اور الفاظ کی شکل میں موجود نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں ایسی چمکدار کرنیں ہوتی ہیں جو لوگوں کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں، اسی وجہ سے علماء دیوبند جن کا دوسرا لقب اہل سنت والجماعت ہے کے مسلک میں عمل کے اعتبار سے یہ دونوں اجزاء(قوانین اور ذوات)جو ارشادات نبوی سے ماخوذ ہوں بنیادی عناصر تصور کئے جاتے ہیں ۔درحقیقت،اس جماعت کا  یہی لقب اس کے مضامین کا واضح عنوان ہے جس میں یہ  دونوں بنیادی عناصر'السنت' اور 'الجماعت ' شامل ہیں۔

 

عنوان 'اہل سنت والجماعت' کی  تشریح

اگرالسنۃؔ اور الجماعۃ ؔکی وضاحت کو سامنے لایا جائے تو ان الفاظ میں سب سے بہتر طریقے پر لایا جاسکتا ہے کہ  السنۃؔ میں آپ ﷺ کے تمام افعال اور طریقے شامل ہیں۔ اس لئے دین کے جس قدر بھی شعبے روشن نبوی سے بنتے چلے گئے وہ سب مسلک علماء دیوبندمیں بطور اجزاء شامل ہیں۔ اور الجماعۃ میں آپ ﷺاورآپ کےتمام فیض یافتہ صحابہ، تابعین، ائمہء مجتہدین، اور علماء راسخین فی العلم رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ فرق مراتب کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کی عظمت  ومتابعت اور ادب و احترام کیا جا تاہے، اور اس طرح یہ مسلک اپنے اصول اور اپنی متبوع شخصیتوں کے لحاظ سے سنتِ نبوی اور ذات نبویﷺ کی عظمت و محبت سے پیدا شدہ ایک درخت ہے جس کے ہر پھل پھول میں وہی سنت کا رنگ و بُو رَچا ہوا ہے، جس کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی بھی دینی اور اسلا می شعبہ ایسا نہیں اور نہ ہوسکتا ہے جو سنت نبوی کے آثار میں سے نہ ہو ورنہ اسے دینی ہی کیوں کہا جاتا اور دین کی کوئی بھی دینی اور اولوالامر قسم کی شخصیت ایسی نہیں جو ذات نبوی سے مستنیر نہ ہو اور آپ سے نسبت نہ رکھتی ہو، ورنہ اسے دینی شخصیت ہی کیوں کہاجاتا!اس لئے اگر کسی مسلک کو منشأ نبوت کے مطابق بننا تھا تو وہ اس کے بغیر بن ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ حضورﷺ کے تمام منتسب شعبوں اور حضور سے منسوب تمام ذوات قدسیہ کے تعلق کو اپنے مسلک کا رکن بنائے اور انہی کی روشنی میں آگے بڑھےتاکہ اسے اپنے نبی سے اصولی اور ذاتیاتی دونوں قسم کی صحیح اور جامع نسبت حاصل رہے۔ شریعت کے تمام علمی وعملی شعبے اور نہ صرف فروعی شعبے بلکہ دین کی وہ ساری حجتیں جن سے یہ شعبے اور خود شریعت بنی ہے وہ حضور ہی کی مختلف الانواع  نسبتوں کے ثمرات و آثار ہیں۔ مثلاً آپ کی نسبت ایمانی سےعقائد کا شعبہ پیدا ہوا جس کا فنّی اور اصطلاحی نام کلامؔ ہے، اور آپ کی نسبت اسلامی سے عملی احکام کا شعبہ پیدا ہواجس کا اصطلاحی نام فقہؔ ہے، آپ کی نسبت احسانی سے تزکیہء نفس اور تکمیل ِ اخلاق کا شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی نام تصوفؔ ہے، آپ کی نسبتِ اعلاء کلمۃ اللہ سے سیاست وجہاد کا شعبہ پیدا ہوا جس کا عنوانی لقب امارتؔ و خلافتؔ ہے ، آپ کی نسبت استنادی سے سند کے ساتھ نقل دین کا شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی نام فنّؔ روایت و اسناؔد ہے، آپ کی نسبتِ اتّقائی سے علوم ِ فراست و معرفت کا شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی نام فن حقائقؔ و اسرارؔ ہے، ، آپ کی نسبتِ استقرائی  سے کلیات دین اور قواعد شرعیہ کا  شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی نام فن اصولؔ ہےخواہ وہ اصول فقہ ہوں یا اصولِ تفسیر و حدیث وغیرہ، آپ کی نسبتِ اجتماعی سے تعاون باہمی اور حسنِ معاشرت کا  شعبہ پیدا ہوا جس کافنی اور اصطلاحی نام حضارۃؔ و مدنیتؔ ہے۔ ، آپ کی نسبتِ تیسیری  سےسہولت پسندی اور میانہ روی کا شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی لقب عدلؔ و اقتصاؔد ہے۔

پھر شرعی حجتوں کے سلسلہ میں دیکھئے جن سے اس جامع شریعت کا وجود ہوتا ہے تو آپ کی نسبتِ اِنبائی (نبوت) سے وحی متلو کا ظہور ہوا جس کے مجموعہ کا نام القرآنؔ ہے، آپ کی نسبتِ اعلامی و بیانی سے وحی غیر متلو یعنی قولی و فعلی اسوہ ء حسنہ یا بیانِ قرآن کا ظہور ہوا جس کے مجموعہ کا نام الحدیؔث ہے ۔ ، آپ کی نسبتِ القائی ووجدانی سے استنباط و استخراج مسائل کا  شعبہ پیدا ہوا جس کا اصطلاحی نام اجتہادؔ ہے۔

، آپ کی نسبتِ خاتمیت سے امت میں ابدی ہدایت اور عدم اجتماع بر ضلالت کا مقام پیدا ہوا جس سے اس میں حجیت کی شان ظاہر ہوئی جس کا اصطلاحی نام اجماعؔ ہے۔