Select Language
EN  |  UR  |  AR

    فوری لنکس  

شیخ الہند امام المجاہدین حضرت مولانا محمود حسن نور اللہ مرقدہ

المتوفیٰ ۱۳۳۹ھ



ابتدائی حالات اور تعلیم
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒدارالعلوم کے وہ اولین شاگرد تھے جنہوں نےسب سے پہلےاستاد کے سامنے کتاب کھولی۔ حضرت شیخ الہندؒ کی پیدائش ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۸۵۱ء میں بریلی میں ہوئی، جہاں ان کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علیؒ سرکاری محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مشہور عالم چچا مولانا مہتاب علی مرحوم جو ایک مشہور بزرگ تھےسے حاصل کی، قدوری اور شرح تہذیب پڑھ رہے تھے کہ دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا، آپ اس میں داخل ہوگئے۔۱۲۸۶ھ میں  نصابِ دارالعلوم کی تکمیل کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم النانوتوی ؒ کی خدمت میں رہ کر علم حدیث کی تحصیل فرمائی۔ فنون کی بعض اعلی کتابیں والد ماجد سے پڑھیں، اور ۱۲۹۰ھ مطابق ۱۸۷۳ء میں مولانا محمد قاسم النانوتوی ؒ کے دست مبارک سے دستارِ فضیلت حاصل کی ۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں آب کا شمارحضرت  مولانا محمد قاسم النانوتوی ؒ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا تھااور حضرت خاص طور سے شفقت فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کی اعلی علمی اور ذہنی صلاحیتوں کے پیشِ نظر دارالعلوم کی مدرسی کے لئے اکابر کی نظرِانتخاب آپ کے اوپر پڑی اور ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۷۴ء میں مدرس چہارم کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا، جس سے بتدریج ترقی پاکر ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۰ء میں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔

احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں علمی خدمات
ظاہری علم و فضل کی طرح باطن بھی آراستہ تھا۔ ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۸۷۷ء میں اپنے استاد محترم مولانا محمد قاسم النانوتوی ؒ کی معیت میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔ مکہ  مکرمہ ہی میں آپ نے حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدّس سرّہ سےشرفِ بیعت حاصل کیا۔اس سفرِ حج میں علماء کا ایک بڑا قافلہ بن گیا تھا  جن میں حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی کے علاوہ  حضرت مولانارشیداحمد گنگوہیؒ ، مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ، مولانا محمد مظہر نانوتویؒ،  مولانا محمد منیر نانوتویؒ، حکیم ضیاء الدین رامپوری ؒاور مولانا احمد حسن کانپوریؒ جیسے علمائے مشاہیر شامل تھے۔  اس قافلہ کے جملہ حضرات کی تعداد سو کے قریب تھی۔ حضرت شیخ الہندؒ کو حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے خلافت بھی حاصل تھی۔   دارالعلوم میں صدارت تدریس کا مشاہرہ اس وقت ۷۵ روپئے تھا۔، مگر آپ نے ۵۰ روپئے سے زیادہ کبھی قبول نہیں  فرمایا؛ بقیہ ۲۵ روپئے دارالعلوم کے چندے میں شامل فرمادیتے تھے۔آپ کی زبردست علمی شخصیت کے باعث طلباء کی تعداد ۲۰۰ سے بڑھ کر ۶۰۰ تک پہنچ گئی تھی۔ آپ کے زمانے میں ۸۶۰ طلباء نے حدیث نبویؐ سے فراغت حاصل کی۔

 

حضرت شیخ الہندؒ  کے مشاہیر ونامور تلامذہ
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ  کےفیض تعلیم نے مولانا سید محمد انورشاہ کشمیریؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا منصور انصاری، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا سید اصغر حسین دیوبندیؒ، مولانا سید فخرالدین احمدؒ، مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ، مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ جیسے مشاہیر اور نامور علماء کی جماعت تیار کی۔

 

مذاہبِ اربعہ  کا تقابلی مطالعہ
حضرت شیخ الہند ؒکے حلقۂ درس کی خصوصیات کی نسبت مولانا میاں اصغر حسین ؒ نے لکھا ہے:
"حلقۂ درس کو دیکھ کر سلفِ صالحین و اکابرمحدثین کے حلقۂ حدیث کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا۔ قرآن و حدیث حضرتؒ کی زبان پر تھا، اور ائمۂ اربعہ کے مذاہب ازبر، صحابہ و تابعین، فقہاء و مجتہدین کے اقوال محفوظ، تقریر میں نہ گردن کی رگیں پھولتی تھیں، نہ منھ میں کف آتا تھا، نہ مغلق الفاظ سے تقریر کو جامع الغموض اور بھدی بناتے تھے، نہایت سبک اور سہل الفاظ بامحاورہ اردو میں اس روانی اور جوش سے تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ دریا امنڈرہا ہے،یہ کچھ مبالغہ نہیں ہے، ہزاروں دیکھنے والے موجود ہیں کہ وہی منحنی اور منکسر المزاج ایک مشت استخوان، ضعیف الجثہ، مرد خدا جو نماز کی صفوں میں ایک معمولی مسکین طالب علم معلوم ہوتا تھا، مسند درس پر تقریر کے وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر خدا ہے، جو قوت و شوکت کے ساتھ حق کا اعلان کر رہا ہے، آواز میں کرختگی آمیز بلندی نہ تھی، لیکن مدرسہ کے دروازے تک بے تکلف قابل فہم آواز آتی تھی، لہجے میں تصنع اور بناوٹ کا نام نہ تھا، لیکن خدا تعالیٰ نے تقریر میں اثر دیا تھا، بات دل نشین ہوجاتی تھی، اور سننے والا بھی یہ سمجھ کر اٹھتا تھا کہ وہ جو فرمارہے ہیں حق ہے۔

بہت سے ذی استعداد اور ذہین و فطین طالب علم جو مختلف اساتذہ کی خدمتوں میں استفادہ کرنے کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے، اپنے شکوک و شبہات کے کافی جواب پانے کے بعد حضرت مولانا کی زبان سے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے معانی اور مضامین عالیہ سن کر سر نیاز خم کرکے معترف ہوتے کہ یہ علم کسی کو نہیں ہے اور ایسا محقق عالم دنیا میں نہیں ہے۔

مسائل مختلف فیہا میں ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ بلکہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اور مختصر طور سے دلائل بھی نقل کرتے، لیکن جب امام بوحنیفہؒ کا نمبر آتا تو مولانا کے قلب میں انشراح، چہرے پر بشاشت، تقریر میں روانی، لہجے میں جوش پیدا ہوجا تا تھا، دلیل پر دلیل، شاہد پر شاہد، قرینہ پر قرینہ بیان کرتے چلے جاتے، تقریر رکتی ہی نہ تھی اور اس خوبی سے مذہب امام اعظمؒ کو ترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع اور منصف المزاج لوٹ جاتے تھے۔ دور کی مختلف المضامین احادیث جن کی طرف کبھی خیا ل بھی نہ جاتا تھا پیش کرکے اس طرح مدّعا ثابت فرماتے کہ بات دل میں اتر تی چلی جاتی اور سامعین کا دل گواہی دیتااور آنکھوں سے نظر آجاتا تھا کہ یہ ہی جانب حق ہے۔

بایں ہمہ ائمہ ٔ اسلام کا ادب و احترام اور ان کے کمالات کا اعتراف حضرت کی تعلیم کا ایک جزء لاینفک ہوگیا تھا، خود بھی ایسی ہی تقریر فرماتے اور صراحت سے ذہن نشین کراتے کہ مذاہب مجتہدین حق ہیں اور وہ سب مستدل بالکتاب والسنۃہیں، ان کی تنقیص موجب بدبختی اور سوء ادب باعث خسران ہے۔
محدثین میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ائمۂ مجتہدین میں امام اعظم ابو حنیفہؒکے ساتھ خاص تعلق تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں کہ "میں نے حضرت شیخ الہند سے حضرت مولانا محمد قاسمؒ کی حجۃ الاسلام پڑھی، کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یوں محسوس کرتا کہ جیسے علم اور ایمان میرے دل میں اوپر سے نازل ہورہا ہے"۔

جدوجہدِآزادی کاآغاز
پہلی جنگ عظیم ابھی شروع نہیں ہوئی تھی مگر اس کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے، برطانوی حکومت سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعصابی جنگ شروع کرچکی تھی۔ روز بروز حالات کی نزاکت بڑھتی جارہی تھی، یہاں تک کہ ۱۹۱۴ء مطابق ۱۳۳۳ءھ میں جنگ کا خوفناک شعلہ بھڑک اٹھا، یہ زمانہ حضرت شیخ الہندؒکے لئے بڑی بے چینی اور اضطراب کا تھا، انڈین نیشنل کانگریس کا نصب العین اس وقت تک حقوق طلبی کی حد سے آگے بڑھنے نہیں پایا تھا، یہ حالات تھے جنہوں نے حضرت شیخ الہند کو ایک انقلابی تحریک کی داغ بیل ڈالنے پر مجبور کردیا، انہوں نے مسلح انقلاب کے ذریعہ سے برطانوی حکومت کا تختہ پلٹ دینے کا یک منصوبہ تیار کیا، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا کہ یہ بڑا منظم منصوبہ تھا۔

۱۳۳۰ھ مطابق ۱۹۱۱ء کا زمانہ دنیائے اسلام کے لئے سخت ابتلا کا زمانہ تھا، یورپ کی حکومتوں نے ایک خفیہ معاہدہ کے ذریعہ یہ طے کیا کہ ترکوں کی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے، اس کا آغاز ترکی کے مقنوضہ علاقے طرابلس پراٹلی کے حملے سے ہوا، فرانس نے مراکش پر غاصبانہ قبضہ کرلیا، بلقان کی عیسائی ریاستوں نے  ترکوں پر پے درپے حملے شروع کردئے، اس کارروائی کے پس پردہ تمام تر برطانوی سیاست کارفرما تھی، یہ واقعات ہر دردمند مسلمان کے لئے تشویشاک تھے،ترکوں کے خلاف انگریز اور دوسری یورپی قومیں جس طرح برسرِ جنگ تھیں اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کرچکی تھیں، اس سے مسلمانوں کے جذبات بےحد مشتعل تھے، اس لئے انگریزوں سے نفرت بڑھ رہی تھی، اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں میں بڑاجوش اور ہیجان پھیلاہوا تھا، ساری دنیا کے مسلمان خلافت عثمانیہ کو اسلام کی پشت پناہ سمجھتے تھے اور اسے عظمت و احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے، اس کے حکمرانوں کو خلیفۃ المسلمین اور خادم الحرمین الشریفین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

 

مسلح انقلاب اور تحریکِ خلافت
حضرت شیخ الہندؒ نے اس زمانے میں ہندوستان کے اندر مسلح انقلاب کے ذریعے سے انگریزوں کا اقتدار ختم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر ایک منصوبہ تیار کیا، اس کے لئے انہوں نے نہایت منظم طور پر اپنا پروگرام مرتب کیاتھا، ان کے شاگردوں اور رفقائے کار کی ایک بڑی جماعت جو ہندو بیرونِ ہند کے اکثر ممالک میں پھیلی ہوئی تھی، ان کے مجوزہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت سرگرمی اور جان بازی کے ساتھ کوشاں تھی۔ شاگردوں میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمد میاں منصور انصاری اور دوسرے بہت سے تلامذہ اس میں شامل تھے، جنہوں نے حضرت شیخ الہند کے سیاسی اور انقلابی پروگرام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں، یہ بڑی منظم تحریک تھی، اس نے آزادی کے لئےآئندہ پورے ہندوستان میں فضا ہموار کردی، یہ کام دو محاذوں سے شروع کیا گیاتھا، ایک محاذ اندرونِ ملک کا تھا، اور دوسرا ملک سے باہر، دونوں محاذوں پر مسلح جدوجہد کی تیاری کی جارہی تھی۔

اس وقت عام خیال تھا کہ طاقت کے بغیر انگریزوں کا ہندوستان سے نکال دینا ممکن نہیں ہے، اور چونکہ ہندوستانیوں سے ہتھیار چھین لئے گئے ہیں، اس لئے جنگِ آزادی شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلحہ اور سپاہ کی غیر ملکی امدادواعانت حاصل کی جائے۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ الہند کی نظر سب سے پہلے افغانستان پر گئی، ہندوستان اور افغانستان کی سرحدیں ملی ہوئی ہونے کی وجہ سے وہاں سے مدد اور اسلحہ ملنا سب سے زیادہ آسان تھا، اسی کے ساتھ ہندوستان کی سرحد پر بسے ہوئے آزاد قبائل سے مدد لی جاسکتی تھی، اسلحہ اور سپاہ کا مرکز یاغستان کے آزاد علاقے کو بنایا گیا تھا۔

حضرت شیخ الہند نے صوبہ سرحد کے ان علماء سے جو دارالعلوم کے طالب علم رہ چکے تھے رابطہ قائم کیا، ان کا منصوبہ یہ تھا کہ افغانستان سے لیکر ہندوستان تک انگریزوں کے خلاف ایک جال بچھا دیا جائے، اور کسی مناسب موقع پر ہندوستان اور آزاد قبائل کی منظم طاقت برطانوی ہند پر حملہ آور ہو، اور دوسری طرف ملک بھر میں جنگِ آزادی کا آغاز کردیا جائے، ان کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسی صورت ہوگی جس کا انگریز مقابلہ نہ کرسکیں گے۔  

ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے باہر کی حکومتوں سے بھی اس سلسلے میں مدد لینا ضروری تھا، اس بناء پر آپ نے مولانا عبیداللہ سندھی کو ایک خاص مشن پر کابل جانے کا حکم دیا اور مولانا محمد میاں منصور انصاری کو آزاد قبائل میں جہاد کی تلقین کے لئے بھیجا  اور ترکوں سے مدد حاصل کرنے کے لئے خود حجاز کا سفر کیا، انگریز اس زمانے میں جرمنی سے جنگ میں مصروف تھے، رولٹ کمیٹی کے پیراگراف ۱۶۴ میں سرکاری سرکاری طور پر ریشمی خطوط کی تریک کے متعلق جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:

اگست ۱۹۱۶ء  مطابق  ۱۳۳۴ھ میں ریشمی خطوط کے واقعات کا انکشاف ہوا، یہ ایک منصوبہ تھا جو ہندوستان میں اس خیال سے تجویز کیا گیا تھا کہ ایک طرف شمالی مغربی سردحد پرگڑبڑ پیداکرےاور دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں کی شورش سے اسے تقویت دیکر برطانوی حکومت کو ختم کردیاجائے، اس منصوبہ کو عمل میں لانے کے لئے مولوی عبید اللہ نامی ایک شخص نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اگست ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں شمال مغربی سرحد کو عبور کیا ، عبیداللہ پہلے سکھ تھا بعد میں مسلمان ہوا، اس نے دیوبند میں مذہبی تعلیم حاصل کی ، عبید اللہ نے جن لوگوں پر اپنا اثر ڈالا ان میں سب سے بڑی شخصیت مولانا محمود حسن کی تھی، جو مدتوں اس درسگاہ کے مدرس رہے ہیں۔ عبید اللہ چاہتا تھا کہ دیوبند کے فارغ التحصیل علماء کے ذریعے سے ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف ایک عالم گیر اسلامی تحریک چلائے، مولانا محمود حسن کے مکان پر خفیہ مجالس قائم ہوتی تھیں ، کہا جاتا ہے کہ سرحد کے کچھ آدمی بھی ان میں شریک ہوتے تھے۔ ۸ ستمبر ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ کو مولانا محمود حسن نے ہندوستان میں چھوڑدیا اور حجاز پہنچ گئے۔ عبید اللہ اور مولانا محمود حسن کا اہم مقصد یہ تھا کہ بیک وقت ہندوستان پر باہر سے بھی حملہ کرایا جائے اور ہندوستان میں بھی بغاوت پھیلائی جائے، عبید اللہ اور اس کے دوستوں نے پہلے ہندوستانی متعصب جماعتِ مجاہدین سے ملاقات کی پھر کابل پہنچے، وہاں عبید اللہ کی ملاقات ترک جرمن مشن سے ہوئی ، کچھ عرصے کے بعد اس کا دیوبندی دوست محمد میا ں بھی اس سے جا ملا، یہ شخص مولانا محمود حسن کے ساتھ حجاز چلا گیا تھا اور وہاں سے ۱۹۱۶ء مطابق ۱۳۳۴ھ میں جہاد کا ایک اعلان حاصل کرکے واپس آیا تھا، جسے مولانا محمود حسن نے حجاز کے ترکی سپہ سالار غالب پاشا سے حاصل کیا تھا۔ یہ دستاویز 'غالب نامہ' کے نام سے مشہور ہے۔ محمد میاں نے اس کی فوٹوکاپیاں راستے میں ہندوستان اور سرحدی قبائل میں تقسیم کیں۔

عبید اللہ اور اس کے ساتھیوں نے برطانوی حکومت کے خاتمے پر عارضی حکومت کے لئے ایک تجویز تیار کی تھی، اس تجویز کے مطابق مہندرپرتاپ نامی ایک شخص کو صدر ہونا تھا ، یہ شخص ایک معزز خاندان کا جوشیلا ہندو ہے، ۱۹۱۴ء مطابق ۱۳۳۲ھ کے آخر میں اسے سوئزرلینڈ، اٹلی اور فرانس وغیرہ جانے کا پاسپورٹ دیا گیا تھا، یہ سیدھا جنیوا گیا  اور وہاں بدنام زمانہ ہردیال سے ملا، جس نے اسے جرمن قونصل سے ملایا، وہاں سے یہ جرمن آیا اورایک خاص مشن پر کابل بھیجا گیا، خود عبید اللہ کو وزیر ہند اور برکت اللہ کو وزیر اعظم بننا تھا، برکت اللہ  کرشنا ورما کا دوست اور امریکن غدر پارٹی کا ممبر تھا۔

۱۹۱۶ء مطابق ۱۳۳۴ھ کی ابتدا ء میں مشن کے جرمن ممبر اپنے مقصد میں ناکام ہوکر افغانستان سے چلے گئے، مگر ہندوستانی ممبر وہیں رہے، انہوں نے عارضی حکومت کی جانب سے روسی ترکستان کے گورنر اور زارِروس کو خطوط بھیجے، جن میں ان سے برطانیہ کا ساتھ چھوڑنے اور ہندوستان میں برطانوی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے امداد طلب کی گئی تھی، ان خطوط پر راجہ مہندر پرتاپ کے دستخط تھے۔ زار روس کو جو خط لکھا گیا تھا وہ سونے کی تختی پر تھا، اس عارضی حکومت کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ترکی حکومت سے روابط قائم کئے جائیں، اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے عبید اللہ نے ۹ جولائی ۱۹۱۶ء مطابق ۱۳۳۴ھ کو مولانا محمود حسن کے نام ایک خط لکھا۔ اس کے ساتھ دوسرا خط محمد میاں انصاری کا تھا، جس میں غالب نامہ کی اشاعت کا ذکر تھا، عارضی حکومت اور 'حزب اللہ' کے نام سے فوج کے قیام کی تجویز درج تھی، اس فوج کی بھرتی ہندوستان سے کرنی تجویز ہوئی تھی، عارضی حکومت کا کام اسلامی حکومت کے درمیان اتحاد کا سلسلہ قائم کرنا تھا، مولانا محمود حسن سے درخواست کی گئی تھی کہ سارے واقعات سلطنت عثمانیہ تک پہنچادیں، یہ خطوط زرد ریشم پر لکھے گئے ہیں۔

عبید اللہ کے خط میں حزب اللہ کا مکمل و مرتب نقشہ تھا، اس فوج کا مرکز مدینہ میں قائم ہونا تھا، خود مولانا محمود حسن کو اس کا سالار اعلی بننا تھا، ثانوی مرکز مقامی سالاروں کے ماتحت قسطنطنیہ، طہران اور کابل میں قائم ہونے تھے، کابل کا سالار عبید اللہ کو بنا تھا، اس فہرست میں تین سرپرستوں ، بارہ جنرلوں اور کئی اعلی فوجی عہدہ داروں کے نام درج ہیں۔ یہ ریشمی خطوط برطانوی حکومت کے ہاتھ آگئے ہیں ، ان خطوط میں جو اطلاعات درج ہیں ان کی وجہ سے چند پیش بندیاں مناسب سمجھی گئیں، ۱۹۱۶ء مطابق ۱۳۳۵ھ میں مولانا محمود حسن اور ان کے چار ساتھی برطانوی حکومت کے قبضہ میں آگئے، وہ اس وقت برطانوی نگرانی میں جنگی قیدی ہیں، غالب نامہ پر دستخط کرنے والا غالب پاشا بھی جنگی قیدی ہے، اس نے یہ اقرار کیاہے کہ محمود حسن پارٹی نے میرے سامنے ایک خط رکھا تھا جس پر میں نے دستخط کئے ہیں۔

 

حجاز کاسیاسی سفراور مالٹا میں نظر بند
شیخ الہند نے اپنی مجوزہ اسکیم کو کامیاب بنانے کے لئے پیرانہ سالی کے باوجود ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء میں حجاز کا سفر فرمایا، وہاں کے ترکی گورنر غالب پاشا اور انور پاشا سے جو اس وقت ترکی کے وزیر جنگ تھے، ملاقات فرماکر بعض اہم امور طے کئے۔ آپ حجاز سے براہ بغداد بلوچستان ہوتے ہوئےسرحد کے آزادقبائل میں پہنچنا چاہتے تھے کہ اچانک جنگ عظیم کے دوران میں شریف حسین والئ مکہ نے انگریز حکام کے ایماء پر آپ کو گرفتار کرکے ا ن کے حوالے کردیا، یہ گرفتاری رفقاء سمیت ۲۳ صفر ۱۳۳۵ح کو ہوئی۔ حضرت شیخ الہند کے ساتھ حضرت مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیرگل، حکیم نصرت حسین اور مولوی وحید احمد بھی گرفتار کئے گئے، مکہ مکرمہ سے آپ کو جدہ لے جایا گیا، وہاں ایک ماہ کے قریب نظربند رکھا گیا۔ ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۵ھ (۱۲ جنوری ۱۹۱۷) کو جہاز پر سوار کراکر سوئز لیجا یا گیا، اور پھر وہاں سے مالٹا لے جایا گیا، جو برطانوی قلمرو میں جنگی مجرموں کے لئے محفوظ ترین مقام سمجھا جا تا تھا، حضرت شیخ الہند اور آپ کے رفقاء کے بیانات لئے گئے ، بیان کے دوران جو سوالات کئے گئے ان میں یہ تین سوال اہم تھے:۔
(۱) آپ کا مدینہ منورہ میں غالب پاشا اور دوسرے ترکی وزراء سے ملاقات کا مقصد کیا تھا؟
(۲) آپ نے ترکو ں کے خلاف تکفیر کے فتوی پر دستخط کرنے سے کیوں گریز کیا ہے۔
(۳) افغانستان میں مولانا عبید اللہ سندھی کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل دریافت کی گئی تھی۔
ادھر ہندوستان میں حضرت شیخ الہند کے رفقاء سے تفتیش کی گئی، غرض کہ ہندوستان میں ذی قعدہ ۱۳۳۴ھ (ستمبر ۱۹۱۶) سے لے کر ایک سال سے کچھ زائد مدت تک تفتیش کا سلسلہ جاری رہا، 'سفرنامہ اسیر مالٹا' اور نقش حیات میں اس کی پوری تفصیلات درج ہیں،

مالٹا میں سوا تین سال مع رفقاء نظر بند رکھا گیا ، جنگ کے ختم ہونے پر آپ کو ہندوستان آنے کی اجازت ملی اور ۲۰ رمضان المبارک ۱۳۳۸ مطابق ۱۹۲۰ء کو آپ نے ساحلِ ممبئی پر قدم رنجہ فرمایا۔ دیوبند پہنچ کر آپ سب سے پہلے دارالعلوم میں تشریف لائے۔ بعد ازاں مکان تشریف لے گئے۔

ہندوستان پہنچتے  ہی حضرت شیخ الہند تحریک خلافت میں شریک ہوگئے، برطانوی حکومت کے خلافآپ نے ترک موالات  کا فتویٰ دیا، جس سے ملک میں زبردست ہیجان پیدا ہوگیا۔ حضرت  شہخ الہند کے منصوبے کے انکشاف کے بعد اگرچہ ریشمی خطوط کی تحریک بظاہر ختم ہوگئی، مگر حضرت شیخ الہند کے جذبۂ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی،ہندوستان پہنچتے ہی برطانوی حکومت  نے مختلف ذرائع سے ان کو سیاست سے کنارہ کش رہنے پر آمادہ کرنیکی کوشش کی مگر انہوں نے اسے مسترد کردیا، ممبئی میں جہاز سے اترنے پر مولانا شوکت علی مرحوم اور خلافت کمیٹی کے ممبروں سے ملاقات ہوئی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی لکھنؤ سے، اور گاندھی جی احمداباد سے آکر ممبئی میں ملے، دوسرے لیڈروں سے بھی باتیں ہوئیں۔ حضرت شیخ الہند خلافت کمیٹی اور جمعیۃ علماء ہندکے ساتھ آزادئ وطن کی تحریک میں شریک ہوگئے اور اس طرح ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلح بغاوت کا منصوبہ ختم ہوگیا۔

 

مولانا عبید اللہ سندھی کی ذاتی ڈائری کے دیباچہ نگار نے لکھاہے کہ :
شیخ الہند کی جماعت کو گزشتہ جنگ عظیم میں وہی حیثیت حاصل تھی جو دوسری جنگ کے دوران آزادہند فوج اور آزاد حکومت ہند کو حاصل رہی ہے، جس طرح بعد از جنگ کی موجودہ سرگرمیاں دراصل دوران جنگ کی باغیانہ جدوجہد کی ترقی یافتہ صورت ہے اسی طرح تحریک خلافت (۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ تا ۱۹۲۲ء مطابق ۱۳۴۱ھ) کی سیاسی جدوجہد حضرت شیخ الہند کی جماعت اور ان کے شرکاء کار کی سرگرمیوں کی ترقی یافتہ صورت تھی۔ اگر آزاد ہند کےت کارناموں کا سہرا سہاش چندربوس کے سر ہے تو پہلی جنگ عظیم کے بعد کی سرگرمیوں کا مرکز  حضرت شیخ الہند تھے، ان کی سیاسی سرگرمیاں ۱۹۰۵ء مطابق ۱۳۲۳ھ سے شروع ہوئی تھیں اور اس پروگرام کا جزو تھیں، جس کو مولانا عبید اللہ سندھی شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت بڑے زوروشور سے شروع ہوئی، یہ درحقیقت ملک کی آزادی کے لئے عظیم پیمانے پر ایک منظم کوشش کا آغاز تھا، جس کے سامنے انڈین نیشنل کانگریس کی ملک گیر سیاست ماند پڑگئی تھی، گاندھی جی نے اس وقت اپنے غیر معمولی سیاسی تدبر اور دور بینی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے موقع کے سنگین حالات کی نزاکت کا احساس کرکے انڈین نیشنل کانگریس کو خلافت کمیٹی کے ساتھ مربوط کردیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان کی قومی تحریک میں اتنی توانائی اور زور پیدا ہوگیا کہ انگریز حکمرانوں کو ہندوستان کا سنبھالنا مشکل ہوگیا، اس مربوط اور متحدہ جدوجہد کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستان نے بڑی  تیزرفتاری کے ساتھ آزادی کی منزلیں طے کرلیں اور صرف ۲۷ سال کی مدت میں ملک آزاد ہوگیا۔

جدوجہد آزادئ ہند کی تاریخ میں اس اہم موڑ کو نظر انداز کردیناقرین انصاف نہیں ہے، اگر گاندھی جی اس وقت کانگریس اور خلافت کمیٹی کو مربوط نہ کردیتے تو ہندوستان کے لئے آزادی کی منزل اس قدر جلد طے کرلینا ہرگز آسان نہ ہوتا۔

جنگ آزادی میں نئے دور کی قیادت اورجمعیۃ علماء ہند کی تشکیل
نومبر ۱۹۱۹ میں دہلی میں منعقدہ خلافت کانفرنس کے موقع پر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی قیادت میں انقلابی سوچ کے حامل علماء کرام نے  ایک نئی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام کی مدد سے جنگ آزادی کی غیرمتشدد فضا قائم رہے۔ اس تنظیم کا نام 'جمعیۃ علماء ہند' طے پایا۔ مفتئ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب اس کے سب سے پہلے صدرمنتخب ہوئے۔  اس تنظیم کا قیام انقلابی تحریک میں ایک اہم موڑ ہے۔ انہوں نےغیر مسلح جدوجہد شروع کی ، اورترک موالات اختیار کی  ۔ بالآخر اس طریقۂ کار سے ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔ 

جامعہ ملیہ اسلامیہ(موجودہ مرکزی یونیورسٹی نئی دہلی)  کا قیام
ہندوستان تشریف لانے کے بعد حضرت شیخ الہند تحریک خلافت میں شریک ہوگئے، آپ نے برطانوی حکومت کے خلاف ترک موالات کا فتوی دیا جس سے ملک میں زبردست ہیجان پیدا ہوگیا، حتیٰ کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تک کو لوگ بند کرنے  پر آمادہ ہوگئے، اس زمانے میں حضرت شیخ الہندؒ سخت علیل تھے، لیکن اسی حالت میں آپ علی گڑھ تشریف لے گئے، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (جو بعد کو دہلی منتقل ہوگئی) کا افتتاح ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۰ء (۱۶/ صفر ۱۳۳۹ھ) کو علی گڑھ کی جامع مسجد میں کیا، اس موقع پر آپ نے جو اہم سیاسی خطبہ دیا تھا وہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔  

 

حضرت شیخ الہند کا ایک نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ ان کی مساعی سے علی گڑھ اور دیوبند ایک پلیٹ فارم پر نظر آنے لگے، اور علی گڑھ اور دیوبند کے مابین جو بُعد تھا وہ بڑی حد تک کم ہوگیا، غرض کہ آپ علم و فضل اور زہدوتقویٰ کے علاوہ  سیاست و تدبر میں بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ اگرچہ مالٹا سے واپسی کے بعد صحت گڑچکی تھی اور قویٰ پیرانہ سالے کے باعث نہایت ضعیف ہوگئے تھے مگر بایں ہمہ آپ نے نہایت شدومد کے ساتھ سیاسی کاموں میں حصہ لیا، طبیعت اس بار گراں کی متحمل نہ ہوسکی، اسی دوران میں علی گڑھ کا سفر پیش آیا، واپسی کے بعد جب حالت زیادہ تشویشناک ہوگئی تو بغرض علاج ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے یہاں دہلی لیجایا گیا، حکیم اجمل خان بھی شریک علاج تھے، مگر وقت موعود آچکا تھا؛ ۱۸/ربیع الاول ۱۳۳۹ھ (۳۰/نومبر ۱۹۲۰ء) کی صبح کو عازم ملک بقا ہوگئے۔

جنازہ دیوبند لایا گیا اور اگلے روز حضرت الامام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہ کی قبر مبارک کے قریب یہ گنجینۂ فضل و کمالات دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہوگیا۔
شاگردوں میں بے شمار علماء و فضلاء کے علاوہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ، ادلۂ کاملہ، ایضاح الادلۃ، احسن القری، جہد المقل، الابواب والتراجم اور مختلف فتاوی اور سیاسی خطبات تصنیفی یادگار ہیں۔
مندرجہ ذیل کتابوں میں حضرت شیخ الہند کے تفصیلی حالات درج ہیں:
(۱) حیاتِ شیخ الہند، مصنفہ مولانا میاں اصغر حسین دیوبندیؒ
(۲) نقش حیات، مصنفہ مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ
(۳) اسیر مالٹا، مصنفہ مالانا مدنیؒ
(۴) تذکرہ شیخ الہند، مصنفہ مولانا عزیزالرحمٰن بجنوریؒ
(۵) تحریک شیخ الہند، مرتبہ مولانا سید محمد میاں ؒ