Ref. No. 1499/42-998
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی ہاں، ایسی بیوہ عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔ ایام قربانی میں کسی کے پاس اگر بقدر نصاب مال موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے ہدیہ میں آئے یا صدقہ میں یا بطور میراث ملے۔ اور قربانی کے لئے سال کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔ اس لئے اگر بیوہ کوگزشتہ رمضان میں ساٹھ ہزار روپئے صدقہ کے موصول ہوئے، اور قربانی کے دن آگئے اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال اب بھی موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
وأما شرائط الوجوب، منہا: الیسار،وہو من لہ مائتا درہم أو عشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ - - - الی قولہ - - - في حاجتہ التی لا یستغني عنہا (هندیة: الباب الاول فی تفسیر الاضحیۃ ورکنھا 5/292) بدائع: فصل فی انواع کیفیۃ الوجوب 5/68)
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية (1/ 191)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند