129 views
مولانا صاحب کیا فرماتے ہیں علمائدین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید اوربکر دو کاروباری حضرات ہیں،وہ اپنا کاروبار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مثلا" زید کو اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے پیسے کی ضرورت ہے وہ بکر سے پیسے کا مطالبہ کرتا ہے بکر مارکیٹ سے دراہم خرید کر زید سے کچھ منافع کے ساتھ فروخت کرتا ہے ،زید کی خواھش کے مطابق وہ ٹوٹل رقم ماہانہ قسطوں کے حساب سے ادا کرے گا کیوں کہ قسط میں ان کو آسانی ہوگی،کیا یہ سودا شریعت میں جائز ہے ؟
مثال کے طور پر بکر ایک لاکھ روپئے پر چار ہزاردراھم خرید کر زید پر ایک لاکھ ستائس ہزار روپے پر فروخت کرتا ہے ، زید نے دراھم قبول کئے اور خوش بھی تھا لیکن اس نے بکر سے مطالبہ کیا کہ میرے لئے قسط مقررکریں۔ میں ماہانہ تین ھزار روپے ادا کروں گا۔اس طرح زید ایک لاکھ ستائس ھزار روپے ماہانہ تین ھزار قسط کے حساب سے ادا کرتا رہتا ہے ۔یہے ؟
asked Oct 9, 2019 in تجارت و ملازمت by Shahbakhsh

1 Answer

Ref. No. 41/850

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکورہ صورت پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں عدم جواز کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔

واذا عدم الوصفان والمعنی المضموم الیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلۃ (قدوری باب الربوا ص95)

و لو باع الفلوس بالفلوس ثم افترقا قبل التقابض، بطل البيعولو قبض أحدهما ولم يقبض الآخر، أو تقابضا ثم استحق ما في يدي أحدهما بعد الافتراق، فالعقد صحيح (الھندیہ/ البحر ج6ص219)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 23, 2019 by Darul Ifta
...