Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ? کے لیے حیات برزگی ثابت ہے،آپ? قبراطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرماں ہیں۔الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔حَیَاۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَبْرِہِ ہُوَ وَسَاءِرِ الْاَنْبِیَاء ِ مَعْلُومَۃٌ عِنْدَنَا عِلْمًا قَطْعِیًّا لِمَا قَامَ عِنْدَنَا مِنَ الْاَدِلَّۃِ فِی ذَلِکَ وَتَوَاتَرَتْ (بِہِ) الْاَخْبَارُ، وَقَدْ اَلَّفَ الْبَیْہَقِیُّ جُزْء ًا فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ فِی قُبُورِہِمْ، فَمِنَ الْاَخْبَارِ الدَّالَّۃِ عَلَی ذَلِکَ مَا اَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ اُسَرِیَ بِہِ مَرَّ بِمُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرِ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ قَاءِمٌ یُصَلِّی فِیہِ، وَاَخْرَجَ ابو یعلی فِی مُسْنَدِہِ، وَالْبَیْہَقِیُّ فِی کِتَابِ حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْاَنْبِیَاء ُ اَحْیَاء ٌ فِی قُبُورِہِمْ یُصَلُّونَ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنْ یوسف بن عطیۃ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِیَّ یَقُولُ لحمید الطویل: ہَلْ بَلَغَکَ اَنَّ اَحَدًا یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ إِلَّا الْاَنْبِیَاء َ؟ قَالَ: لَا، وَاَخْرَجَ ابو داود وَالْبَیْہَقِیُّ عَنْ اوس بن اوس الثقفی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ: مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فَاَکْثِرُوا عَلَیَّ الصَّلَاۃَ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ عَلَیْکَ صَلَاتُنَا وَقَدْ اَرِمْتَ؟ یَعْنِی: بَلِیتَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَامَ الْاَنْبِیَاء ِ، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی شُعَبِ الْإِیمَانِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِی سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلَّی عَلَیَّ نَاءِیًا بُلِّغْتُہُ.
وَاَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ فِی تَارِیخِہِ عَنْ عمار سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ لِلَّہِ تَعَالَی مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَاءِقِ قَاءِمٌ عَلَی قَبْرِی فَمَا مِنْ اَحَدٍ یُصَلِّی عَلَیَّ صَلَاۃً إِلَّا بُلِّغْتُہَا، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ مِاءَۃً فِی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ، قَضَی اللَّہُ لَہُ مِاءَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الْآخِرَۃِ وَثَلَاثِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الدُّنْیَا، ثُمَّ وَکَّلَ اللَّہُ بِذَلِکَ مَلَکًا یُدْخِلُہُ عَلَیَّ فِی قَبْرِی کَمَا یُدْخِلُ عَلَیْکُمُ الْہَدَایَ(حاوی للفتاوی،انباء الاذکیا بحیاۃ الانبیاء،۲/۸۷۱)(۲)آپ? کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے بلکہ خود حضو ر? نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے،اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہ۔\ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ، اَنَّ رَجُلًا ضَرِیرَ البَصَرِ اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّہَ اَنْ یُعَافِیَنِی قَالَ: إِنْ شِءْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِءْتَ صَبَرْتَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ. قَالَ: فَادْعُہْ، قَالَ: فَاَمَرَہُ اَنْ یَتَوَضَّاَ فَیُحْسِنَ وُضُوء َہُ وَیَدْعُوَ بِہَذَا الدُّعَاء ِ: اللَّہُمَّ إِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، إِنِّی تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ(سنن الترمذی حدیث نمبر؛3578)وَمن آدَاب الدُّعَاء تَقْدِیم الثَّنَاء علی اللہ والتوسل بِنَبِی اللہ، لیستجاب الدُّعَاء (حجۃ اللہ البالغۃ 2/10)(3)صحابہ کرام تمام کی تمام عادل اور معیار حق ہیں صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم? سے جس قدر دین برحق سیکھا دو دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا،کوء ی حکم نہیں بدلا،کوئی بات آنحضرت? کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نییہ فرمایا کہ یہ حضور? کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے،صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کینقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جاء ے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گااور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کینزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے،اۃن کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہذا عقل دین میں صحابہ معیار حق ہیں (فتاوی محمودیہ۲/۵۰۲)جن حضرات کے یہ خیالات ہیں وہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا،ان کی دعوت قبول کرنا،ان کی پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہوتو احتراز بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند