128 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حال ہی میں ہمارے ایک عزیز کی وفات ہوئی ہے جنھوں نے اپنے پیچھے کچھ مالی اثاثے، سونے کے زیورات اور جائیداد چھوڑی ہے۔ مرحوم غیر شادی شدہ تھے، اِس لیے اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی بیوی چھوری ہے، نہ کوئی اولاد۔ اُن کے والدین اور اکلوتی بہن پہلے ہی فوت ہوچکے  تھے۔ متوفّٰی نے اپنے مال کے بارے میں کوئی وصیت بھی نہیں کی ہے اور اپنے بعد جو اعزہ واقارب اُنھوں نے بقید حیات چھوڑے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ ایک ماموں۔
۲۔ دو خالائیں۔
۳۔ تین وفات پائے ہوئے چچاؤں کی اولاد۔(ایک چچا کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، دوسرے کے دو بیٹے اور چاربیٹیاں ہیں، جب کہ تیسرے کی صرف تین بیٹیاں ہیں)
۴۔ ایک وفات پائی ہوئی پھوپھی کی اولاد۔(چار بیٹے اور ایک بیٹی)
5۔ تین وفات پائی ہوئی خالاؤں کی اولاد۔(ایک خالہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، دوسری کا صرف ایک بیٹا ہے، جب کہ تیسری خالہ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں)

مذکورہ بالا صورت حال میں دین وشریعت کی رو سے اِس میت کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی اور اِس کے حق دار مرحوم کے کون اعزہ ہوں گے؟ اور اگر مرحوم کے تمام اعزہ واقارب اُس کے ترکے کو اُس کے  اور اُس کے والدین کے ایصال ثواب کے لیے خیر کے کاموں میں خرچ کرنےپر راضی ہوں تو کیا ایسا بھی کیا جاسکتا ہے، جب کہ متوفی کی طرف ایسی کوئی وصیت بھی نہیں کی گئی ہے۔ براے کرم دلائل کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائیے گا۔  جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
asked Jan 15, 2020 in احکام میت / وراثت و وصیت by Muhammad Amir Gazdar
edited Jan 24, 2020 by Muhammad Amir Gazdar

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) صورت مذکورہ میں چچا کے بیٹے عصبہ ہوں گے؛ اور ساری جائداد چچا کی مذکر اولاد کے درمیان تقسیم ہوگی، اس طور پر کہ جائداد کے چار حصے کئے جائیں گے،  اور ہر ایک بیٹے کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ باقی تمام رشتہ دار محروم ہوں گے اور ان کو کوئی بھی حصہ نہیں ملے گا۔ (2) اگر مذکورہ چچاؤں کے چاروں لڑکے بالغ ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جائداد سے دستبردار ہوجائیں اور میت کے ایصال ثواب کے لئے خرچ کرنے پر راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔ ولایجوز لاحدھما ان یتصرف فی نصیب الآخر الابامرہ وکل واحد منہما کالاجنبی فی نصیب صاحبہ (عالمگیری ۲؍۳۰۱) 

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jan 18, 2020 by Darul Ifta
...