196 views
السلام علیکم
علمائے کرام سے درج ذیل مسئلہ پر رہنمائی درکار ہے کہ میں ایک مکان میں کرایہ پر رہتا ہوں معاہدہ کرایہ میں مالک مکان نے ایک شرط رکھی ہے کہ جس حالت میں مکان اوردیگر چیزیں دی ہیں اسی حالت میں واپس لی جائیں گی کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ یا خرابی کا ذمہ مالک مکان نہیں ہوگا
اب ٹرانسفارمر کی خرابی کی وجہ سے واٹر پمپ یا میٹر گیس یا میٹر بجلی خراب ہوجائے تو اس کا خرچہ کس کے ذمہ ہوگا؟
کیا معاہدہ میں درج بالا شرط رکھنا جائز ہے؟
اگر مالک مکان، مکان کا ضامن کرایہ دار کو بنائے اور اس سے کرایہ وصول کرے تو کیا اس کے لیے یہ کرایہ وصول کرنا درست ہوگا؟
برائے مہربانی سوال کا جواب جلد از جلد دے دیں
جزاکم اللہ خیر
asked Feb 3, 2020 in اسلامی عقائد by asifchinioty

1 Answer

Ref. No. 41/1007

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کے اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونےکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی ۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔"وإن تكارى داراكل شهر بعشرة على أن يعمرها ويعطي أجر حارسها ونوابها فهذا فاسد؛ لأن ما يعمر به الدار على رب الدار والثانيةكذلك عليه فهي الجباية بمنزلة الخ راج فهي مجهولة فقد شرط لنفسه شيئاً مجهولا مع العشرة. وضم المجهول إلى المعلوم يجعل الكل مجهولا "(السرخسي: المبسوط ( ١٥/١٤٩)فإن قلت: «نهى - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» فيلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث.قلت: ليس بقاض عليه، بل على القياس؛ لأن الحديث معلوم بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة، والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث، فلم يبق من الموانع إلا القياس. والعرف قاض عليه اهـ ملخصا. قلت: وتدل عبارة البزازية والخانية، وكذا مسألة القبقاب على اعتبار العرف الحادث، ومقتضى هذا أنه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة،(فتاوی شامی ٥/٨٨)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Feb 11, 2020 by Darul Ifta
...