Ref. No. 878/41-1122
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دوسری منزل پر مدرسہ قائم کرنے کی ضروررت کیا ہے، سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اگر مسجد بوسیدہ ہورہی ہے تو اس کی از سر نو تعمیر کی جاسکتی ہے، دوسری جگہ بڑی مسجد تعمیر کرکے اصل مسجد کو مدرسہ بنانا درست نہیں ہے۔ جو مسجد ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ عارضی طور پر کہیں نماز پڑھیں اور اس مسجد کی از سر نو تعمیر کرلیں، اور اگر یہ محسوس ہوتا ہو کہ یہ جگہ آبادی کے حساب سے مسجد کے لئے ناکافی ہے تو اس کو مسجد باقی رکھتے ہوئے دوسری مسجد تعمیر کرلی جائے۔
ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدا عندالامام والثانی ) ابدا الی قیام الساعۃ (وبہ یفتی ) حاوی القدسی (وعاد الی الملک) ای ملک البانی او ورثتہ (عند محمد)۔
قال فی البحر: وحاصلہ ان شرط کونہ مسجدا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبدعنہ لقولہ تعالی( وان المساجد للہ-سورۃ الجن 18) بخلاف ما اذا کان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد ، فھو کسرداب بیت المقدس ھذا ھو ظاھر الروایۃ وھناک روایات ضعیفۃ مذکورۃ فی الھدایۃ اھ (ردالمحتار 4/358)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند