200 views
اگر نکاح میں لڑکی کے اصل والد کی جگہ  لڑکی کی ماں کے دوسرے خاوند کا نام لکھا گیا ہو ۔ تو کیا یہ نکاح درست ہو جائے گا۔ جبکہ دلہا اور گواہان اور رشتہ دار یہ جانتے تھے کہ نکاح کس لڑکی کا ہو رہا ہے - یعنی لڑکی پہلے سے ہی معاشرے میں اسی پرورش کرنے والے (سوتیلے باپ) کے نام سے متعارف ہے ۔ اور لڑکی خود مجلس نکاح میں موجود تھی اور ایجاب و قبول ( بجائے وکیل کے ) مذکورہ لڑکی نے خود کیا ہے ۔ کیا ایسے نکاح کی تجدید کی کوئی ضرورت ہے ؟ ہمیں صرف نکاح کے متعلق مسئلہ بتائیں۔ اور اگر یہ نکاح شرعی لحاظ سے مکمل مانا جائے گا تو حنفی مسلک کے مطابق اس کی کوئی دلیل بھی لکھ دیجئیے ۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
asked May 14, 2020 in نکاح و شادی by Ali Imran

1 Answer

Ref. No. 906/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے تاہم  مذکورہ نکاح درست ہوگیا۔ اصل مقصود تعارف اور لڑکی کی تعیین ہے،   اور مذکورہ صورت میں لڑکی متعین ہوگئی تو  نکاح درست ہوگیا۔

لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجة، ويؤيده ما سيأتي (الدرالمختار 3/15)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 9, 2020 by Darul Ifta
...