309 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
 ایک مسجد ہے جو ایک بلڈنگ کے نچلے حصے میں ہے اوپر لوگوں کی رہائش ہے، مسجد اور لوگوں کے بیت الخلاء کا پانی ایک جگہ جمع ہوتا ہے جب کبھی وہ جگہ بھر جاتی ہے تو اہل بلڈنگ اس کی صفائی نہیں کرواتے ہیں مجبورا مسجد کمیٹی ہی کو اس گندگی کی صفائی کرانی پڑتی ہے، بلڈنگ والوں کو ملکی قانونی دشواری کی وجہ کر صفائی کرنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسجد کمیٹی کا بینک اکاونٹ ہے،اسی سے امام وموذن کو تنخواہ دی جاتی ہے اور مصارف مسجد میں خرچ کیا جاتاہے اس اکاونٹ میں کچھ سود کی رقم بھی آئی ہوئی ہے،تو  سودی رقم جو مسجد کے اکاونٹ میں ہے اس سےمسجدکےبیت الخلاءکی گندگی صاف کرنے والے کو  سودی پیسہ دے سکتے ہیں، اسی طرح لاک ڈاؤن کی وجہ کر پولس والوں کے شر سے مسجد اور مصلی کو بچانے کے لیے مسجد کی سودی رقم  کو بطور رشوت کے دے سکتے ہیں یا نہیں ؟
ابن جمیل ممبئ
asked Jun 8, 2020 in ربوٰ وسود/انشورنس by Md Yousuf

1 Answer

Ref. No. 916/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے سود کی رقم حاصل ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بلا نیت ثواب غرباء  پر خرچ کردیا جائے ، رفاہ عام میں خرچ کرنا یا رشوت میں خرچ کرنا درست نہیں ہے اس لیے  مسجد کا مذکورہ سودی پیسے سے مسجد کی نالی کی صفائی کرانا یا رشوت دینا درست نہیں ۔اس لیے کہ رفاہی کاموں میں صرف کرنا یا رشوت میں دینا درحقیقت سود سے نفع حاصل کرنا ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: "لَيأتيننَّ على النَّاس زمانٌ لا يبقَى أحدٌ إلا أكل الرِّبا، فإن لم يأكله أصابه من بُخارِه(سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :٣٣٣١)فتاوی شامی میں ہے :ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (فتاوي شامي 6/385)

  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jul 1, 2020 by Darul Ifta
...