539 views
ہمارا سوال لاک ڈاؤن کے زمانہ کی تنخواہ سے متعلق ہے۔ میں میڈیکل کالج میں  2003 سے مستقل ٹیچرہوں اور میڈیکل کالج والے 12 مہنوں کی فیس پہلے ہی لے لیتے ہیں۔ حکومت کی ہدایت کی بناء پر اس لاک ڈاؤن میں اسٹاف نے کام نہیں کیا، جبکہ سب کی معاش اسی تنخواہ پر منحصر ہے۔ اب انتظامیہ تنخواہ دینے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ شرعی نقطہء نظر سے اس کی تفصیل  مرحمت فرمائیں۔  افضل
asked Jun 22, 2020 in تجارت و ملازمت by azhad1

1 Answer

Ref. No. 946/41-88

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسکول ، کالج ،مدارس یا کمپنی میں جو لوگ مستقل ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں وہ اصطلاح میں اجیر خاص کہلاتے ہیں، جب تک ادارہ یا کمپنی کی طرف سے تنخواہ نہ دینےیا اجارہ کے سلسلے میں کسی نئے اصول کی کوئی وضاحت نہ کردی جائے وہ اپنی ملازمت پر باقی ہیں ،اجیر خاص وقت کا پابند ہوتا ہے،وقت گزرنے پروہ تنخواہ کا مستحق ہوجاتا ہے خواہ ا س وقت میں اس سے کام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔لاک ڈاؤن میں جو ملازمین اپنے ادارے سے وابستہ تھے اور کام پر جاناچاہتے تھے ؛لیکن ملکی قانون کی بنا پر خود ادارے یا کمپنی نے ان سے کام نہیں لیا ہے جب کہ بعض ملازمین ادارے میں حاضر تھے یا اپنے گھروں میں تھے لیکن کام پر آنا چاہتے تھے تو بظاہر ملازمین کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی ہے اس لیے ملازمین اپنی تنخواہ کے مستحق ہوں گے۔
تاہم یہاں ایک سوال بہت اہم ہے جو ادارے اور کمپنیوں کی طرف سے تنخواہ نہ دینے کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہم کہاں سے دیں گے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ملازمین، ملازمت کے باقی ہونے کی وجہ سے تنخواہ کے مستحق ہیں اورادارہ نے صراحت کے ساتھ ملازمت کا معاملہ ختم نہیں کیا ہے اس لیے وہ عرف کے مطابق ملازمت پر باقی مانے جائیں گے  ظاہر ہے کہ کمپنی یا ادارہ ان کو برطرف بھی نہیں کرسکتا ہے اس لیے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعدادارہ اور کمپنی کو ان ملازمین کی ضرورت ہوگی چوںکہ ملازمین ادارہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بغیر ادارے کا کوئی بھی عمل بحال نہیں ہوسکتاہے اس لیے ایسا کیا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں جو ادارے مکمل تنخواہ دے سکتے ہیں وہ مکمل دیں اور جو مکمل نہیں دے سکتے ہیں جزوی تنخواہ دے سکتے ہیں وہ فی الحال اتنی دے دیں اور باقی سہولت ہونے کے بعد دے دیں ،یافی الحال کچھ بھی نہیں دے سکتے ہیں تو کچھ بھی نہ دیں لیکن جب مدرسہ یا اسکول بحال ہوجائے تو گزشتہ مہینوں کی تنخواہ قسط وار حسب سہولت اداکردی جائے ۔
ملازمین کے سلسلے میں حدیث میں بڑی اہم ہدایات دی گئی ہیں ، ہمیں وہ پیش نظر رہنی چاہئیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ملازم تمہارے بھائی  ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہےپس جو تم کھاؤ وہ انہیں بھی کھلاؤ اور جو تم پہنو وہ انہیں بھی پہناؤ ان پر طاقت سے زیادہ کا بوجھ مت ڈالو،اور اگر اس کی ضرورت ہی پڑ جائے تو ان کا تعاون کرو۔حاصل یہ ہے کہ کمپنی یا ادارے کا ملازمین کو موجودہ حالات میں مکمل برطرف کردینا ،یا بالکل تنخواہ نہ دینا ،شرعا اور اخلاقا درست نہیں ہے ۔ملازمین کا تعاون ہی کیا جانا چاہیے اوراگر کسی مجبوری کی بناء پرملازم کے لیے کوئی نیا ضابطہ طے کرنا پڑے تو جس وقت نئے ضابطہ کی اطلاع دی گئی اس وقت سے ملازم نئے ضابطہ کا پابند ہوگا۔

 قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم، فأطعموهم مما تأكلون، وألبسوهم مما تلبسون، ولا تكلفوهم ما يعنيهم (1)، فإن كلفتموهم فأعينوهم"(سنن ابن ماجہ٤/٦٤٨)(والأجير الخاص) - ويسمى أجير واحدٍ أيضا - هو (الذي) يعمل لواحد عملا موقتا بالتخصيص، ومن أحكامه أنه (يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة) المعقود عليها (وإن لم يعمل) وذلك (كمن استؤجر شهراً للخدمة أو لرعي الغنم) ؛ لأن المعقود عليه تسليم نفسه، لا عمله،(اللباب شرح الكتاب 2/94) الاجير يستحق الاجرة اذا كان في مدة الاجارة حاضرا للعمل و لا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له ان يمنع عن العمل واذا منع لا يستحق الاجرة ومعني كونه حاضرا للعمل ان يسلم نفسه للعمل و يكون قادرا في حال تمكنه من ايفاء ذلك العمل (دررالحكام شرح مجلة الاحكام " مادة 470،ا/٣٨٧)الاجیر الخاص من یستحق  الاجرۃ بتسلیم النفس و بمضی المدۃ و لایشترط العمل فی حقہ لاستحقاق  الاجرۃ۔ (تاتارخانیۃ١٥/٢٨١)
 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 22, 2020 by Darul Ifta
...