135 views
السلام علیکم مفتی صاحب
میرا نام سمیر ہے میں سیکر راجستھان کا رہنے والا ہوں
میری شادی کو پانچ سال ہو چکے ہیں اور اللہ کے .
 کرم سے دو سال کی بچی ہے. سب کچھ اچھا چل رہا تھا پچھلے ایک سال سے بے روزگار بیٹھا ہوں بجنیس میں میرے پاپا کے بہت بڑا نقصان ہو گیا تھا جسکی وجہ سے کچھ مہینوں سے کمرے میں بند
 تھا قرضداروں کی وجہ سے.میری دماغی حالت خراب چل رہی تھی  میں ڈیپریشن  میں جا چکا ہوں اور اب نیند کی گولی لینے لگا ہوں. ابھی کچھ دن پہلے میں اپنی بیوی سے فون پر بات کر رہا تھا اچانک کسی بات کو لیکر مینے اپنی بیوی کو طلاق طلاق طلاق بول دیا جسکا مجھے بہت پچھتاوا ہے. میں اپنی بیوی کو واپس اپنے گھر لانا چاہتا ہوں. آپ مجھے بتائیں اس میں کچھ گنجائش ہے یا نہیں.سمیر راجستھان
asked Jul 9, 2020 in طلاق و تفریق by عبداللہ قاسمی

1 Answer

Ref. No. 1001/41-163

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاق کے بعد نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مرد و عورت دونوں اجنبی ہوجاتے ہیں۔ تین طلاق کے بعداب ایک ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لہذا عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے شوہر سے جدا ہوجائے اور کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اپنی زندگی گزارے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں اس کو بیان کیا ہے:  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ الآیۃ (سورہ بقرہ)۔ 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jul 13, 2020 by Darul Ifta
...