142 views
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص جو جزیرۃ العرب میں مقیم ہے اور وہاں کی تاریخ کے مطابق بارہ ذو الحجہ کی شام تک وہ قربانی نہیں کرسکا لہذا اس نے ہندوستان میں اپنے ایک عزیز کو وکیل بنایا کہ اس کی طرف سے قربانی کر دی جائے اور ہندوستان میں أیام نحر کا آخری دن ( بارہ ذو الحجہ ) ہے تو کیا جزیرۃ العرب میں مقیم شخص کی طرف سے قربانی ہو جائے گی یا نہیں؟
اس مسئلے کا حکم جب بندہ نے تلاش کیا تو دارالافتاء بنوری ٹاؤن کراچی کا حکم عدم صحت کا تھا اور ہندوستان کے اکابرین میں اختلاف نظر آیا
بعض قربانی کے صحیح ہونے کے قائل تھے بعض عدم صحت کے جس سے احقر کشمکش میں مبتلا ہو گیا لہذا آپ حضور والا سے درخواست ہے کہ آپ تحقیقی اورحتمی جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں فقط والسلام ____ تنویرالاسلام قاسمی
asked Jul 29, 2020 in ذبیحہ / قربانی و عقیقہ by تنویرالاسلام

1 Answer

Ref. No. 1057/41-233

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  صحت قربانی کے لئے مقام قربانی میں ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جزیرۃ العرب میں مقیم شخص کی قربانی ہندوستان میں 12 ذی الحجہ کو درست ہے۔ مثلا اگر یہ شخص 12 ذی الحجہ کو ہندوستان آجائے تو اس کے لئے  اپنی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے تو اسی طرح اس کے وکیل کے لئے بھی جائز ہے۔

وان کان الرجل فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ   (بدائع 4/213)۔ والمعتبر مکان  الاضحیۃ لا مکان المضحی (بزازیہ 3/156) (الھندیہ 6/289) ولو کان  فی مصر وقت الاضحیۃ واھلہ فی مصر آخر فکتب الی الاھل وامرھم بالتضحیۃ فی ظاھر الروایۃ یعتبر مکان الاضحیۃ (خانیۃ 3/243) (الھندیۃ 3/345)۔ واول وقتھا ای اول وقت تضحیۃ الاضحیۃ بعد فجر النحر لکن لا تذبح فی المصر قبل صلوۃ العید وھذا الشرط لمن تجب علیہ صلوۃ العید۔ ثم المعتبر فی ذلک مکان الاضحیۃ حری لوکان فی السواد والمضحی فی المصر یجوز من انشقاق الفجر وعلی عکسہ لایجوز الا بعد الصلوۃ  (مجمع الانہر- فقیہ الامت 4/169)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Aug 14, 2020 by Darul Ifta
...