391 views
اسلامک فقہ اکیڈمی کے چوبیسویں سیمینار منعقدہ کیرالہ بتاریخ 3 مارچ بروز شنبہ 2015 میں خون عطیہ کے متعلق کچھ تجاویز منظور ہوئی تھیں جن میں سے کچھ تجویز یہ تھیں کہ
 #ایسے بلڈ بینک جہاں لوگ رضاکارانہ طور پر خون عطیہ دیتے ہیں اور وہ بینک ضرورت مندوں کو مفت خون فراہم کرتے ہیں وہاں مسلمان کے لئے خون کا عطیہ کرنا جائز ہے #رضاکارانہ بلڈ کیمپ لگانا اور بلڈ بینک قائم کرنا بھی انسانی ضرورت کے پیش نظر جائز ہے . اور یہ انسانی خدمت میں شامل ہے .(بحوالہ :کتاب النوازل جلد 16 صفحہ 215 مطبوعہ المرکز العلمی لال باغ مراد آباد) اس بارے میں آپ وضاحت فرما دیں کہ مذکورہ صورتحال اور ضرورت کے پیش نظر بلڈ بینک میں خون عطیہ کرنا اور بلڈ کیمپ لگانا درست ہوگا یا نہیں؟
اور کیا سیمینار کی مذکورہ تجاویز معتبر ہے یا نہیں؛.؟؟
asked Sep 12, 2020 in متفرقات by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1134/42-355

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آج کل خون کی بہت کثرت سے ضرورت پڑتی ہے اور بسا اوقات جس گروپ کا خون چاہئے افرادِ خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہوتاہے جس کا گروپ موافق ہو، اور بسا اوقات کسی حادثے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس کا فوری طور پر دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس ضرورت کے پیشِ نظر بلڈ بینک کا قائم کرنا بھی جائز ہے، حضرت مفتی نظام الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گجائش ہوگئی تو چوں کہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسڈینٹ کے موقع پر   - --   پھر اس میں بھی خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لئے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لئے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا، اور اس کا ایک خزانہ بنانا لازم ہوگا، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے ،  لأن الشيء إذا ثبت ثبت بجمیع لوازمہ۔ (منتخبات نظام الفتاوی، ۱؍۴۲۲)
حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ بینک کا قیام جائز ہے اور جب بلڈ بینک کا قیام جائز ہوا تو بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے، اس کے لئے بلڈ کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا بھی جائز ہے ، اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنا بلڈ بینک قائم کرنا بھی مفید ثابت ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو بلا شرط وعوض کے خون فراہم کرکے کمزور اور معذور انسانوں کی خدمت کی جاسکے، اس کے لئے کسی مخصوص دن کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا بھی درست ہے، نیز اگر بینک کسی مریض کو خون دیتے وقت اس کے کسی رشتہ دار سے خون کا مطالبہ کرے تو یہ ہبہ بالعوض ہے، اس لئے بینک کایہ مطالبہ جائز ہے، تاکہ بینک میں خون کا اسٹاک موجود رہے اور آئندہ دوسرے مریض کی ضرورت پوری کی جاسکے، علامہ شامی لکھتے ہیں:
وہب لرجل عبدا بشرط أن یعوضہ ثوبا إن تقایضا جاز وإلا لا۔
(رد المحتار ۸؍۵۰۸، مکتبہ زکریادیوبند)
اگر کسی مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو اور اس کا خون نادر گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دستیاب نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جس شخص کے پاس اس گروپ کا خون ہے اگر اس کے خون دینے میں اس کو کوئی جسمانی ضررلاحق نہ ہو اور اس کو جس مقدار خون کی ضرورت ہے اس کے جسم میں اس سے زیادہ خون ہوتو ایسے شخص کے لئے ایک انسان کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا مستحب ہوگا، اس لئے کہ یہ مصیبت زدہ شخص کی مصیبت دور کرنا اور کسی کے ساتھ احسان اور تعاون علی البر والخیر کی قبیل سے ہے، جس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں کسی مصیبت کو دور کردے گااللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرمادیں گے۔(مسلم شریف، رقم الحدیث:۳۸)۔معلوم ہوا کہ فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز صحیح اور معتبر ہیں فقط

واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 14, 2020 by Darul Ifta
...