140 views
مکان میں تین فلور ہے ہر فلور میں ایک فلیٹ بنا ہوا ہے، پہلے فلور میں میری والدہ اور دو بہنیں رہتی ہیں، گراؤنڈ فلور میں میرے والد رہتے ہیں اور تیسرے فلور میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں اور جس میں میرے بیوی بچوں کا خرچہ راشن کچن اور بیت الخلاء وغیرہ سب الگ ہے میرے والدین اور بہنوں سے، اب میری بیوی مجھ سے لڑ جھگڑ کر چلی گئی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ مجھے الگ گھر لے کر دو تو میں واپس آؤں گی جبکہ میرے والدین کی عمر اکہتر اور پچہتر سال اور اور دو بہنوں کی عمر اڑتالیس اور پچاس سال ہے اور میں اپنے والدین اور بہنوں کا اکیلا واحد کفیل ہوں ان کا دیکھ بھال خدمت وغیرہ کرتا ہوں، تو کیا اس صورت میں میری بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے؟ کیا میں اس مطالبہ کو پورا کرنے کا پابند ہوں ؟
asked Nov 30, 2020 in نکاح و شادی by Abdul Samad Khan

1 Answer

Ref. No. 1223/42-537

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے  ، تو ایسی صورت میں  بیوی کا  الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔  شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔  اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے  تاہم والدین کی خدمت  اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔ 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".  (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23)  لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Dec 9, 2020 by Darul Ifta
...