83 views
ایک صاحب مدرسے میں پڑھاتے ہیں اور وہ کسی بزرگ سے بیعت بھی ہو گئے ہیں اب انکا یہ حال ہے کہ وہ مدرسے کے اوقات میں بھی اپنے اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں مدرسے کی تعلیم شروع ہوجاتی ہے مگر وہ صاحب بے فکر ہوکر مصلے پر جمے رہتے ہیں تو کیا انکا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ کیا مدرسے کے اوقات کو اپنے وظائف میں خرچ کرنا از روئے شرع درست ہے؟
asked Apr 2, 2021 in تجارت و ملازمت by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1437/42-858

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس  کا وقت  فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں  مدرس  تدریسی خدمت کے لئے ملازم  ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے  سونپے  گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔

[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة]  (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 1, 2021 by Darul Ifta
...