114 views
السلام علیکم و رحمة الله وبركاته، میں نے دوست سے کہا کے دنیا اگر ترقی کرتے کرتے انسان کو پتھر یا اس سے بھی آگے کوئ عجیب چیز بنادے تب بھی ہم ترقی کو دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ اب دین کی باتیں پرانی ہیں وغیرہ وغیرہ، کیونکہ قرآن پاک میں لکھا ہوا ہے (پھر میں نے وہ ایت پاک کا مفھوم پیش کیا کہ قل. کونو حجارة اور اکبر من ذالك....)
اسی طرح میں نے آیت پاک پڑھی یامعشر الجن و الإنس أن استطعتم أن تنفظو من أقطار السماوات والأرض...، اور دوست سے کہا کہ لوگ اگر آسمانوں میں مریخ یا اور کوئ سیارة تک بھی چلیگئے تو یہ نہ سمجھنا کہ وہ خدا کے آگے ہوگئے، بلکہ یہ سب کچھ الله کی عطاء کردہ اذن و وسائل کی وجہ سے ممکن ہوا...سوال یہ ہے کہ کیا اسطرح قرآن شریف کے حوالہ دیکر اسطرح بات کرنا،یہ تفسیر بالرائے میں شمار ہوگا؟، جواب مرحمت فرماکر عند الله مأجور ہوں انشاء الله
asked Jun 4, 2021 in قرآن کریم اور تفسیر by Mohammed

1 Answer

Ref. No. 1443/42-945

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔مذکورہ سوال کے تین اجزاء ہیں:

(۱) تفسیر بالرائے: تفسیر بالرائے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت،جملہ یا کلمہ کی تشریح توضیح محض ذاتی رائے اور سمجھ کی بنیاد پر کی جائے، قرآن فہمی کے جو اصول وشرائط ہیں ان کی رعایت اور پاسداری نہ کی جائے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،ایک اور روایت ہے: فرمایا جس نے علم کے بغیر قرآن میں کوئی بات کہی تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،ایک جگہ اور ارشاد ہے:جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور درست کہا، تب بھی اس نے غلطی کی، (مرقاۃ المفاتیح: ج ۱، ص: ۵۴۴) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بغیر علم کے قرآن کی تفسیر یا مفہوبیان کرناتکلیف دہ اور جرأت کی بات کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے اس لئے آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔

(۲) دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم: (وقالوا أإذا کنا عظاما الخ) یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا یعنی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا اس کے بعد قیامت میں ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جائیں گے اول تو مر کر زندہ ہونا مشکل ہے، (قل کونوا حجارۃ أو حدیدا) اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:آپ فرما دیجئے کہ تم ہڈیوں سے حیات کو بعید کہتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ تم پتھر، لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید ہو دیکھو زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں؟ یعنی یقینا تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔ (مفتی محمد شفیع، بیان القرآن: ج 2، ص: 150)

(یا معشر الجن والإنس إن ستطعتم الخ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے جنات اور انسانوں اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھی بھاگ جائیں اور ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں گے یا میدان حشر سے بھاک کر نکل جائیں گے اور حساب و کتاب سے بچ جائیں گے تو تم اپنی قوت آزمالو اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤگے تو نکل کر دکھلاؤیہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے جو جناتوں اور انسانوں کی کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں ہے، اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہونچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(معارف القرآن ص:255،ج:8)

(۳) دونوں آیتوں (قل کونوا حجارۃ الخ) اور (یا معشر الجن والإنس الخ) کی تفسیر جو آپ نے کی ہے وہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم جواب کا دوسرا جز میں ذکر ہو چکا ہے اس لئے آئندہ کے لئے احتیاط برتیں، کسی بھی آیت کا مطلب بغیر علم کے خود سے ہر گز نہ بتائیں،کسی عالم دین سے سمجھ لیں پھر بیان کریں،آپ نے جن دوستوں کو غلط مطلب بتا یا ہے ان سے اب دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم کی وضاحت کردیں (إن شاء اللّٰہ) مواخذہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jul 7, 2021 by Darul Ifta
...