103 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
مجھے مذکورہ تین سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔ برائے مہربانی جلد از جلد حوالہ جات کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں۔
1) مسیلمہ کذاب کو دعوی نبوت کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا بلکہ بغاوت کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے جنگجوؤں کا گروپ اکٹھا کر لیا تھا؟

2) مسیلمہ کذاب کو دعوی نبوت کی وجہ سے مرتد کہا جائے گا یا زندیق؟

3) کیا زندیق کو دعوت دی جا سکتی ہے کیونکہ میں نے یہی پڑھا ہے کہ زندیق کو دعوت نہیں دی جا سکتی حالانکہ آپ ﷺ نے  مسیلمہ کذاب کو دعوتی خط روانہ کیا تھا۔
asked Jun 8, 2021 in اسلامی عقائد by محمد حماد سعید

1 Answer

Ref. No. 1483/42-906

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسیلمہ کذاب دعوی نبوت کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیاتھا اسی وجہ سے اسے قتال کیا گیاتھا، بغاوت ضمنی چیز تھی  ۔(2) مسیلمہ کذاب کو اس کے دعوی نبوت کی وجہ سے مرتد کہا جائے گا زندیق نہیں ۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں مختلف جگہ اس کو مرتد قرار دیا ہے ہاںآپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں دو گروہ تھے ایک مرتد تھاجیسے مسیلمہ کا گروہ اور ایک باغیوں کا گروہ تھا جو اسلام پر رہتے ہوئے زکوۃ دینے سے انکار کررہاتھااور دونوں سے ہی قتال کیا گیا تھا اور مسیلمہ نے فوج تیار کی تھی اور اپنی فوج کےساتھ جنگ کے لیے آیا تھا اس لیے شبہ ہورتاہے کہ وہ باغی تھا یا مرتد تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتد تھا۔
(3) دعوت مرتد کو بھی دی جاسکتی ہے او رزندیق کو بھی یہی وجہ ہے کہ علماء نے زندیق کے توبہ قبول کرنے کی بات کہی ہے تاہم چوں کہ زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو ا پنے عقائد کفریہ کو دجل و تلبیس نیز ملمع سازی کرتے ہوئے اس خباثت باطنیہ کو اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے اس لیے ایسے شخص کو اسلامی دعوت مفید نہیں ہوتی ہے اس لیے کہ اپنے دجل و فریب سے لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کو دکھا کر باطل کی اسلامی تاویل کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔

كانوا صنفين صنف ارتدوا عن الدين ونابدوا الملة وعادوا إلى كفرهم وهم الذين عناهم أبو هريرة بقوله " وكفر من كفر من العرب " وهذه الفرقة طائفتان إحداهما أصحاب مسيلمة من بني حنيفة وغيرهم الذين صدقوه على دعواه في النبوة وأصحاب الأسود العنسي ومن كان من مستجيبيه من أهل اليمن وغيرهم وهذه الفرقة بأسرها منكرة لنبوة سيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم  - مدعية للنبوة لغيره فقاتلهم أبو بكر رضي الله تعالى عنه حتى قتل الله مسيلمة باليمامة والعنسي بالصنعاء وانقضت جموعهم وهلك أكثرهم والطائفة الثانية ارتدوا عن الدين فأنكروا الشرائع وتركوا الصلاة والزكاة وغيرهما من أمور الدين وعادوا إلى ما كانوا عليه في الجاهلية فلم يكن مسجد لله تعالى في بسيط الأرض إلا ثلاثة مساجد مسجد مكة ومسجد المدينة ومسجد عبد القيس في البحرين في قرية يقال لها جواثى والصنف الآخر هم الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة فأقروا بالصلاة وأنكروا فرض الزكاة ووجوب أدائها إلى الإمام وهؤلاء على الحقيقة أهل بغي وإنما لم يدعوا بهذا الاسم في ذلك الزمان خصوصا لدخولهم في غمار أهل الردة فأضيف الاسم في الجملة إلى الردة إذ كانت أعظم الأمرين وأهمهما وأرخ قتال أهل البغي في زمن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه إذا كانوا منفردين في زمانه لم يختلطوا بأهل الشرك(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب وجوب الزکاۃ ،8/244) ۔وذهب مالك إلى أن توبة الزنديق لا تقبل ويحكى ذلك أيضا عن أحمد وقال النووي اختلف أصحابنا في قبول توبة الزنديق وهو الذي ينكر الشرع جملة فذكروا فيه خمسة أوجه لأصحابنا أصحها والأصوب منها قبولها مطلقا للأحاديث الصحيحة المطلقة. والثاني لا تقبل ويتحتم قتله لكنه إن صدق فيه توبته نفعه ذلك في الدال الآخرة وكان من أهل الجنة. والثالث أنه إن تاب مرة واحدة قبلت توبته فإن تكرر ذلك منه لم تقبل. والرابع إن أسلم ابتداء من غير طلب قبل منه وإن كان تحت السيف فلا تقبل. والخامس إن كان داعيا إلى الضلال لم تقبل منه وإلا قبل منه (قلت) تقبل توبة الزنديق عندنا وعن أبي حنيفة إذا أوتيت بزنديق استتبه فإن تاب قبلت توبته وفي رواية عن أصحابنا لا تقبل توبته. وفيه أن الردة لا تسقط الزكاة عن المرتد إذا وجبت في ماله قاله في التوضيح (ایضا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 29, 2021 by Darul Ifta
...