295 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فرض واجب سنت کی دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ سے پہلے التحیات پڑھ لے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا اسکی کیا وجہ ہے؟؟ اور یہ حکم قصدا پڑھنے میں بھی مانا جائے گا؟؟ ( 2...)  اگر امام نے سجدہ سہو کے  لئے سلام پھیرا اور امام کے ساتھ مسبوق نے بھی پھیر دیا تو مسبوق پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے.. حالانکہ وہ تو ابھی امام کے ساتھ ہے نماز کہاں مکمل ہوئی ہے یعنی وہ قاطع صلات سلام نہیں پھیر رہاہے بلکہ ابھی نماز میں ہی ہے تو ایسا کیوں ہے اس کے لئے؟؟
asked Jun 23, 2021 in نماز / جمعہ و عیدین by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1470/42-952

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔(1)فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت واجب ہے اور آخر کی دو رکعتوں میں سنت ہے،پہلی رکعت میں اگر ثنا کی جگہ پر التحیات پڑھ لی تو تشہد ثنا کے قائم مقام ہو جائے گااس لئے اس سے سجدہ  سہووا جب نہیں ہوگا۔البتہ دوسری رکعت میں بلا تاخیر قرأت واجب ہے اس لئے اگر دوسری رکعت میں فاتحہ سے قبل تشہد پڑھ لیا تو واجب میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگا،علاوہ ازیں تیسری  اور چوتھی رکعت میں چونکہ قرأت سنت ہے اس  لئے اگر تیسری اور چوتھی رکعت  کے شروع میں تشہد پڑھ لیا تو کسی واجب میں تاخیر کا سبب نہیں بنا اس لئے اس صوت میں سجده سہو واجب نہیں ہوگا۔

(2)دوسرے مسئلہ کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے وہ درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ صورت میں تفصیل یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو  اور تشہد میں شریک ہوگا ، سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا۔ اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور بناء نہیں کرسکے گا، لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ سہو کا سلام پھیردیا   تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اوراس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، کیونکہ امام ابھی نماز میں ہے اور مسبوق نے امام کی اقتداء میں سہوا سلام پھیرا ہے۔ اور مقتدی جب تک امام کی اقتداء میں ہو اس کا سہو غیر معتبر ہے۔ 

ان قرأ التشہد  فی قیام الاولی قبل الفاتحۃ أو فی الثانیۃ بعد السورۃ أو فی الأخر يین مطلقاً لا سہو علیہ وان قرأفی الاولیین بعد الفاتحۃ والسورۃ او فی الثانیۃ قبل الفاتحۃ وجب علیہ السہو لانہ اخر واجباً(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:۱۶۴،باب سجود السہو،الھندیہ ص:۷۲۱،ج:)وان قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو دکذلک اذا قرأالفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو (الھندیۃ ص:۲۷۱،ج1) (کبیری ص397)

المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام، بل ينتظر الإمام حتى يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه. وإن سلم فإن كان عامدا تفسد صلاته، وإن كان ساهيا لا تفسد، ولا سهو عليه؛ لأنه مقتد، وسهو المقتدي باطل، فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد، ولا يسلم إذا سلم الإمام؛ لأن هذا السلام للخروج عن الصلاة وقد بقي عليه أركان الصلاة فإذا سلم مع الإمام فإن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته؛ لأنه سلام عمد، وإن لم يكن ذاكرا له لا تفسد؛ لأنه سلام سهو فلم يخرجه عن الصلاة (علاء الدین الکاسانی، بدائع الصنائع، فصل بیان من یجب علیہ سجود السھو و من لا، 1/176)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jul 10, 2021 by Darul Ifta
...