122 views
آج سے کئی سال پہلے میں نے کسی کام کے ہو جانے کے لئے روزانہ کچھ مرتبہ (شاید پچاس مرتبہ)  درود پاک پڑھنے کی منت مانی تھی۔ پھر وہ کام ہو گیا توروزانہ درود پاک پڑھنا شروع کردیا۔ پھر کچھ عرصہ نہیں پڑھا  پھر کسی اور کام کے ہوجانے پر مشروط کر کے کچھ مرتبہ (شاید تیس مرتبہ) روزانہ  درود پاک پڑھنے کی منت مانی تھی۔ پھر وہ کام ہو گیا اس طرح کل تین یا چار کاموں کے متعلق اسی طرح کی منت مانی۔ جس کو کچھ سال پورا کیا اور کچھ سال نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جو درود پاک نہیں پڑھا اس کا کفارہ کیا ہے۔ کیا کفارے سے معاف ہو گا یا  قضا کے طور پر پڑھنا ہوگا۔
یا کفارہ اور قضا دونوں ہو ں گی۔
asked Jun 24, 2021 in اسلامی عقائد by Muhammad Azam

1 Answer

Ref. No. 1471/42-919

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود شریف پڑھنے کی نذر ماننا  صحیح ہے اور  اس کا پورا کرنا واجب ہے نہ کرنے پر گنہ گار ہوگا۔  اگر کسی نے چند منتیں مانیں اور پھر کسی وجہ سے ان کو پورا نہ کرسکا تو اس پر قضا نہیں البتہ ہر نذر کے بدلہ   ایک قسم کا کفارہ دینا ہوگا؛ یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔ متعدد نذروں کا ایک کفارہ ہے یا متعدد، اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ہر نذر کا الگ الگ کفارہ ادا کرے۔

ولو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، ولو نذر أن يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كل يوم كذا لزمه وقيل لا(شامی، کتاب الایمان 3/738) (شرح التنویر 3/105)

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة ، ونحو ذلك." (بدائع الصنائع 6/333)   وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط. ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان (الھندیۃ، الفصل الثانی فی الکفارۃ 2/65)
(وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر) لإطلاق الحديث، «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» ) وهذا دليل لزوم الوفاء بالمنذور وهو حديث غريب إلا أنه مستغنى عنه، ففي لزوم المنذور الكتاب والسنة والإجماع، قال تعالى {وليوفوا نذورهم} [الحج: 29] (فتح القدیرللکمال، فصل فی الکفارۃ 5/92)

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(سورۃ المائدۃ 89) لَا نذر فِي مَعْصِيّة الله وكفارته كَفَّارَة يَمِين وَمن نذر نذرا لَا يطيقه فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين (النتف فی الفتاوی للسعدی، النذور فی المعصیۃ 1/195)

قال علي نذر الله أو يمين الله أو عهد الله (قوله إذا علقه بشرط) أي بمحلوف عليه حتى يكون يمينا منعقدة مثل علي نذر الله لأفعلن كذا أو لا أفعل كذا، فإذا لم يف بما حلف لزمته كفارة اليمين (شامی، کتاب الایمان 3/717)

إذا حلف الرجل على أمر لا يفعله أبدا ثم حلف في ذلك المجلس ومجلس آخر لا أفعله أبدا ثم فعله كانت عليه كفارة يمينين وهذا إذا نوى يمينا أخرى، أو نوى التغليظ، أو لم يكن له نية وإذا نوى بالكلام الثاني اليمين عليه كفارة واحدة وروي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قال: هذا إذا كانت يمينه بحجة، أو عمرة، أو صوم، أو صدقة فأما إذا كانت يمينه بالله فلا يصح نيته وعليه كفارتان قال: أبو يوسف - رحمه الله تعالى - هذا أحسن ما سمعناه منه وإذا كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله فعليه كفارة وحجة كذا في المبسوط. (الفتاوی الھندیۃ الفصل الاول فی تحلیف الظلمۃ وفیما ینوی 2/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 29, 2021 by Darul Ifta
...