92 views
السلامُ علیکم امید ہے کہ خیر و عافیت سے ہونگے کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اگر کوئی شخص بہت ہے زیادہ نشے کی حالت میں ہے اور وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو اور وہ اپنی بیوی کو تین سے زیادہ بار کہے تجھے جواب  درآں حالیکہ وہ نشہ کی حالت میں تھا بعد میں شوہر کو بڑی فکر ہوئی کہ طلاق نہیں دینی چاہیے تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ؟ حالاں کہ وہ جواب کا لفظ استعمال کیا ہے جواب مرحمت فرمائیں
asked Jun 29, 2021 in طلاق و تفریق by محمد نعیم الدین سہرسا بہار
edited Jun 30, 2021

1 Answer

Ref. No. 1485/42-947

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بہت زیادہ نشہ تھا کہ ہوش وحواس گم تھے تو پھر اس کو طلاق ہی کیوں سوجھی، اس لئے صورت مسئولہ میں ایسی حالت نہیں پائی گئی کہ اس کو بالکل ہی کچھ خبر نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی حالت اس طرح بیان کرے تو بھی فقہاء نے زجرا  شرابی کی طلاق کو واقع گردانا ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں  جبکہ لفظ جواب آپ کے علاقہ میں بمنزلہ لفظ طلاق کے صریح ہے تو شریعت کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، اب میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، عورت  اپنا نکاح دوسری جگہ کرنے میں آزاد ہے۔

وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)

وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jul 7, 2021 by Darul Ifta
...