Ref. No. 1492/42-957
الجواب وباللہ التوفیق:۔ شرعا بارات کی کوئی اصل نہیں، اور سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس میں نام و نمود اور اسراف ہے جو شریعت میں قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے، اور جو بارات نام و نمود اور اسراف سے خالی ہو تو جس تعداد کو لڑکی والے برضاء و رغبت بلا کسی معاشرتی دباؤ کے صرف اپنی وسعت کے مطابق بلائیں تو اس تعداد کو لیجانا اور اس میں جانا و کھانا مباح ہے، یہ دعوت نہ سنت ہے نہ واجب اور نہ حرام ہی ہے، محض مباح ہے۔ (ماخوذ از کفایت المفتی 7/471، باب العرس والولیمۃ، مکتبہ فاروقیہ کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند