83 views
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
محترم مفتی صاحبان.. الله پاک آپ حضرات کو جزاء خیر عطاء فرمائے اور حفاظت فرمائے اور آسانیاں فرمائے کی نبی صلی الله عليه وسلم کے وارث ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ اور ہر حال میں امت کی رہنمائ میں لگیں ہیں.. فجزاکم الله خیرا و احسن الجزاء..
مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جب سید الاستغفار پڑھتے ہیں تو جب اس لفظ پر پہنچتے ہیں کہ "و انا علی عھدك و وعدك ماستطعة" ، تو دل میں آتا ہے کہ جھوٹ کہہ رہے ہو، کہاں تم نے کوشش کی ہے کہ حتی المقدور دین پر چلیں"، ان خیالات کا کسطرح مقابلہ کریں،کیا یہ خیال کا آنا درست ہے؟
asked Jul 13, 2021 in حدیث و سنت by Mohammed

1 Answer

Ref. No. 1515/42-985

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان خیالات کا آنا ایمان کی علامت ہے، مسلمان کا دل گناہوں پر اور شریعت کے مطابق زندگی نہ گرزارنے پر  اس کو ملامت کررہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آدمی اپنے دین کے تعلق سے فکرمند ہے اور اس کے مزاج میں سچائی ہے وہ اللہ تعالی سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی سے ڈرتاہے، اور اپنی دینی حالت درست کرنا چاہتاہے، البتہ بعض مرتبہ بشری تقاضوں سے مغلوب ہوکر  وہ غلطی کربیٹھتاہے تاہم نادم و شرمندہ ہے۔ امید ہے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائیں گے ان شاء اللہ۔

جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " والمعنى: عن الذي يمنعكم من قبول ما يلقيه الشيطان إليكم حتى يصير ذلك وسوسة لا يتمكن من القلوب ولا تطمئن إليها النفوس صريح الإيمان، لا أن الوسوسة نفسها صريح الإيمان، لأنها من فعل الشيطان فكيف تكون إيمانا؟ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین، کشف المشکل من مسند عبداللہ بن مسعود 1/327) (شرح النووی، باب بیان الوسوسۃ 2/153) (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الوسوسۃ 1/136)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Aug 2, 2021 by Darul Ifta
...