121 views
فون پر بیوی جھگڑ پڑے اور احمد اپنی بیوی کے متعلق دل میں کہے کہ میری بیوی نے اگر لفظ طلاق منہ سے نکالا تو میری نیت طلاق کی ہوگی احمد کی بیوی نے کہا اونچی آواز میں بولا طلاق تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ دل میں نیت کی تھی کہ بیوی کہ منہ سے طلاق کے الفاظ سننے پر طلاق ہو جائے.
asked Jul 16, 2021 in طلاق و تفریق by نوید

1 Answer

Ref. No. 1520/43-1017

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوتی  اور اس سے بلاتکلم کوئی  طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔  اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ  نہیں بولا ، صرف دل میں نیت کرلی تو بیوی کے بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کے لئے کسی لفظ کا ہونا ضروری ہے صریح ہو یا کنائی۔ دل میں اس طرح کی بات آنا وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے اوروسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)

 رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Aug 15, 2021 by Darul Ifta
...