Ref. No. 1519/42-1004
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں بلا کوئی لفظ بولے ، کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوئی اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا صرف دل میں نیت کرلی اور دل ہی دل میں اس طرح طلاق کو معلق کیا اور پھر تعلیق پوری بھی ہوئی تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق لفظ صریح سےبلانیت واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی لفظ نہیں بولا گیا تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)
رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند