Ref. No. 1530/43-1034
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کے احوال دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتاہے، اور اندازہ لگالیتاہے کہ اس کو کون سا مرض لاحق ہے، اسی طرح عاملین کچھ آثار سے اور علامات سے جادو یا آسیبی اثرات کی تشخیص کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے البتہ عاملین کے اپنے قدیم تجربات ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ، لیکن اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔
’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)
’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند