65 views
جہاں میری شادی 2013  میں ہوئی  ،ابھی تک ہماری رخصتی نہیں ہوئی ، اور لڑکے نےدوسری لڑکی سے شادی کرلی  ہے 2018 میں۔ اور لڑکا بولتا ہے کہ میں طلاق نہیں دوں گا، تمہاری زندگی خراب کردوں گا۔ اب میں دوسری شادی کرنا چاہتی ہوں۔ مہربانی کرکے فتوی بھیج دیں کہ میں کیا کروں۔  mb 09953968141
asked Aug 30, 2021 in طلاق و تفریق by Kulsum jaha

1 Answer

Ref. No. 1571/43-1099

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس لڑکے سے آپ کا نکاح ہوا ہے اگر وہ اپنے ساتھ آپ کو رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق حاصل کریں، اگرخلع کا معاملہ کرتے ہوئے  کچھ پیسے دینے پڑیں تو دے کر اس سے طلاق حاصل کریں، اس سے طلاق لئے بغیر آپ کا نکاح دوسری جگہ نہیں ہوسکتاہے۔ اور اگرکسی بھی طرح شوہر طلاق نہیں دیتا ہے تو کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔ قاضی صاحب نوٹس جاری کریں گے، اور شوہر کی سرکشی متحقق ہوجانے پر آپ کا نکاح ان سے فسخ کردیں گے۔ اس کے بعد آپ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرسکیں گی۔البتہ عدالت سے بھی طلاق  کی قانونی کارروائی مکمل کرالیں تاکہ بعد میں وہ لڑکا آپ کو پریشان نہ کرسکے۔(ماخوذ از حیلۃ ناجزۃ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)

قوله تعالى: ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا (البقرة231)  فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان الی قولہ: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه. (البقرۃ 229)

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".بدائع 3/145)

لا يجوز الخلع إلا إذا كرهته المرأة وخافت أن لا توفيه حقه أو لا يوفيها حقها ومنعوا إذا كرهها الزوج لما تلونا وجوابه ما ذكرناه، وذكر القدوري في مختصره إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به أخرجه مخرج العادة أو الأولوية لا مخرج الشرط وأراد بالخوف العلم والتيقن به (تبیین الحقائق باب الخلع 2/268)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 5, 2021 by Darul Ifta
...