Ref. No. 1577/43-1116
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فوت شدہ کی بیوی یا اولاد ضرورتمند ہیں تو ان کی مدد کرنی چاہئے جبکہ ادارہ کے قیام کے اولین مقاصد میں سے غریبوں کی مدد کرناہے۔ اور زکوۃ وغیرہ کی رقم بھی بطور وظیفہ دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے تو اس کو بڑی رقم بھی دی جاسکتی ہے، ورنہ وظیفہ متعین کرنے میں اور ہر ماہ تھوڑا تھوڑا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ ((شامی کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
. و يكره أن يدفع إلى رجل ماتى درهم فصاعدا وان دفعه جاز.(الھندیۃ 1/188) . و كره اعطاء فقير نصابا أو أكثر الا إذا كان المدفوع إليه مديونا أو كان صاحب عيال. (شامی 2/74) .واذا أهدي للصبي شيء وعلم انه له: فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط ” (الاشباۃ والنظائر 339)
اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَہُوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ․(شامی 3/172)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند