88 views
اسلام آباد پاکستان میں ایک تعلیمی ادارہ ہے جو کہ ٹرسٹ ہے، اس کا باقاعدہ ایک دستور ہے اور انتظام  چلانے کے لیے ایک مجلس منتظمہ ہے جسے ٹرسٹ کے انتظامی معاملات چلانے کا دستور کے مطابق اختیار حاصل یے۔  اس ادارہ  کی آمدن کا ذریعہ اہل خیر کی جانب سے دیے جانے والے صدقات، عطیات، زکوۃ اور بعض طلبہ سے تعلیمی اخراجات کی مد میں لی جانے والی فیس ہے۔
اس ادارہ کے دستور میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ یہ ادارہ ناداروں اور غریبوں کی ہر ممکن مدد کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ؛
اگر اس ادارہ کا کوئی ملازم چاہے مہتمم ہو، مدرس ہو یا غیر تدریسی عملہ ہو، اگر دوران ملازمت فوت ہوجائے تو اس کی بیوہ، غیر شادی شدہ بچیوں اور بچوں کو جو نابالغ ہوں یا بالغ ہوں لیکن زیر تعلیم ہوں یا بیروزگار ہوں، کو اس ادارے کی آمدن سے کسی قسم کا وظیفہ، پنشن وغیرہ دی جا سکتی ہے یا نہیں۔
اور کیا اس مد میں خصوصی چندہ کیا جا سکتا ہے؟
اور کیا اس مد میں مدرسہ زکوۃ وصول کرکے دے سکتا ہے اگرچہ جن کو وظیفہ دیا جائے وہ مستحق زکوۃ نہ ہوں؟
پنشن یا وظیفہ کا مقصد بیوہ اور بچوں کی مدد کے ساتھ ساتھ نوجوان مدرسین کو ترغیب بھی دلانا ہے تاکہ وہ دلجمعی کے ساتھ کام کر سکیں۔
شکریہ
المستفتی
محمد زاہد اعوان
asked Sep 1, 2021 in مساجد و مدارس by محمد زاہد اعوان
edited Sep 5, 2021

1 Answer

Ref. No. 1577/43-1116

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فوت شدہ کی بیوی یا اولاد ضرورتمند ہیں تو ان  کی مدد کرنی چاہئے جبکہ ادارہ کے قیام کے اولین مقاصد میں سے  غریبوں کی مدد کرناہے۔  اور زکوۃ وغیرہ کی رقم بھی بطور وظیفہ  دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے تو اس کو بڑی رقم بھی دی جاسکتی ہے، ورنہ وظیفہ متعین کرنے میں اور ہر ماہ تھوڑا تھوڑا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔   

قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ ((شامی کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

. و يكره أن يدفع إلى رجل ماتى درهم فصاعدا وان دفعه جاز.(الھندیۃ 1/188) . و كره اعطاء فقير نصابا أو أكثر الا إذا كان المدفوع إليه مديونا أو كان صاحب عيال. (شامی 2/74) .واذا أهدي للصبي شيء وعلم انه له: فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط ”  (الاشباۃ والنظائر 339)

اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَہُوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ(شامی 3/172)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 9, 2021 by Darul Ifta
...