71 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں ایک مدرسے کے قریب پچاس قدم پر مسجد ہے جبکہ مدرسے والے اور مدرسے کا عملہ بالغ اور نابالغ بچے اورمدرسین سبھی اپنی جماعت مدرسے میں کرتے ہیں. یہ مستقل کا عمل ہے مسجد میں جاکر نماز نہیں پڑھتے مدرسے میں ہی جماعت کرتے ہیں.. اور انکا کہنا ہے کہ یہاں نماز درست ہے مسجد میں نہ جانے کی وجہ سے بس مسجد کا ثواب نہیں ملے گا. تو کیا انکا یہ عمل درست ہے. اور انکا یہ قول کہاں تک درست ہے؟؟؟
asked Sep 13, 2021 in نماز / جمعہ و عیدین by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1601/43-1314

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں تکثیرجماعت مطلوب ہے۔ مدرسہ میں جو نابالغ بچے ہیں  ان کو مدرسہ میں رہنے دیں، اور تمام مدرسین وبالغ طلبہ مسجد میں ہی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ مدرسہ والوں کی نماز مدرسہ میں درست ہوجاتی ہے  البتہ مسجد کا ثواب نہیں ملتاہے اور بلاضرورت مسجد کی جماعت ترک کرنے کی  مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی واقعی ضرورت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔

 (لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق» ش: هذا من قول ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ورفعه إلى النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غير صحيح. وأخرجه مسلم عن أبي الأحوص قال: قال عبد الله بن مسعود: «لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق وإن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه» .

وأخرج عنه أيضا قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما تخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف» فدل هذا الأثر أن الجماعة سنة مؤكدة؛ لأن إلحاق الوعيد إنما يكون بترك الواجب أو بترك السنة، ودل على أن الجماعة ليست بواجبة؛ لقوله: وإن في سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه، فتكون سنة مؤكدة. (البنایۃ شرح الھدایۃ، حکم صلاۃ الجماعۃ 2/325)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 4, 2021 by Darul Ifta
...