76 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک کاروبار جانتا ہوں کہ اندرون ملک کنٹینرز، اسکریپ اور جو کھلا سامان سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہیں، انہیں کم کرایہ پر ٹرک کا بندوبست کرکے دیتے ہیں، اور جس پر ہم اپنا کمیشن رکھتے ہیں، مثلاََ ہم ٹرک ایک لاکھ  کا کرایہ پر اٹھاتے ہیں، اور انہیں ڈیڑھ لاکھ کا ریٹ دیتے ہیں، اور یہ کمیشن مارکیٹ کے cometition کے مطابق ہوتا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کمپنیوں کے مالک خود ہم سے ڈیل نہیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے مینیجر سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے، جب ہم بل بناتے ہیں، تو مینیجر ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بل میں میرا پانچ سے دس ہزار بڑھا کر رکھو اور وہ مجھے الگ سے دے دو۔

کیا ہم مجبوری میں ان کا مطالبہ پورا کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم اپنا کام تو ایمانداری سے کر رہے ہیں، یہ ہمیں مشکل در پیش آتی ہے، اور اگر یہ دینا ہمیں حرام ہے، تو کوئی قابل عمل ترکیب بتادیں، کیونکہ آج کل اسی نوعیت پر کام ہورہا ہے، اور میں اس کے عکاوہ کوئی کام بھی نہیں جانتا۔

واضح رہے کہ اس کے علاوہ میرا کوئی کاروبار نہیں ہے، والد صاحب سے صرف میں نے یہی کام سیکھا ہے، اور والد صاحب نے بھی ساری زندگی یہی کام کیا ہے، اور میں نے بھی ان کی حیات تک ان کے ساتھ یہ کام کیا ہے، اس کے علاوہ میں کوئی اور کاروبار نہیں جانتا ہوں، اور نہ ہی میرا کوئی مستقل ذریعہ معاش ہے؟
asked Sep 14, 2021 in تجارت و ملازمت by فیاض پراچہ

1 Answer

Ref. No. 1602/43-1297

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمپنی کا مینیجر کمپنی کے مالک کا وکیل اور امین ہوتاہے، کمپنی اس کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے۔ اس کا کسی سے معاملہ کرکے زیادہ پیسے لینا اور کمیشن لینا  مالک کے ساتھ خیانت اور دھوکہ ہے جو جائز نہیں ہے، اس لئے اس کا اس طرح کا مطالبہ شرعا ناجائز ہے، اور آپ کا بل میں اضافہ کرکے رقم  اس کو دینا بھی رشوت کے زمرے میں آتاہے جو حرام ہے۔ اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ روزی کا مالک اللہ تعالی ہے، مینیجر کو سمجھاکر اگر کام چلتاہو تو بہتر ہے ورنہ آپ کسی اور کمپنی سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا کام بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ میں کوئی اور کام نہیں جانتا، بلاوجہ کی بات ہے،  ہاتھ پیر مارنےسے اور محنت کرنے سے راستے کھل جاتے ہیں۔ ابتداء بہت بڑا نقصان نظرآتاہے لیکن جب اللہ کے لئے کوئی جائز کام شروع کرتاہے  تو ہر قدم پر مدد آتی ہے۔ مایوس نہ ہوں۔ جرات کے ساتھ مینیجر سے بات کریں اور رشوت لینے دینے سے گریز کریں۔

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورۃ المائدة: 2)

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".  (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام، الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:1467 ،ج:3؍573،ط:دارالجیل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 3, 2021 by Darul Ifta
...