110 views
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت مفتی صاحب میں نے ایک سوال کیا تھا معذور کے اعتبار سے جس میں ہم نے پوری وضاحت کے ساتھ بات نہیں کی تھی حضرت میں اس بات کو پورا کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے پیشاب کی قطرے کی بیماری ہے جو کہ مسلسل   خطرات آتے رہتے ہیں اور میں معذور میں داخل ہو اس طرح سے میں نے بہت جگہیں پر امامت کرائی ہے حضرت مجھے اب یاد بھی نہیں ہے کہ میں نے کتنی دفعہ امامت کی ہے حضرت مجھے بتائیں کہ اب کیا ہوگا کیونکہ میں نے سنا ہے کہ معذور انسان امامت نہیں کرسکتا جب سے میں نے سنا ہے  میں امامت سے رک گیا ہوں کیونکہ مجھے شروع میں مسئلہ معلوم نہیں تھا حضرت اس اتوار سے رہنمائی فرما دیں کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا کیونکہ ان مقتدیوں کی نماز تو  نہیں ہوئی ....جزاک اللہ خیرا)))))محمد مجاہد الاسلام رانچی جھارکھنڈ
asked Sep 16, 2021 in نماز / جمعہ و عیدین by محمد مجاہد الاسلام رانچی جھارکھنڈ

1 Answer

Ref. No. 1606/43-1202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت  نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما  م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔  اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی  کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو  اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔  لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی  وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔   البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.

قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ".  (شامی (1/ 578)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 30, 2021 by Darul Ifta
...