Ref. No. 1605/43-1157
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند