240 views
ایک آدمی کے دل میں طلاق کے وسوسے آ رہے تھے وہ اونچی آواز میں بولا خیالات آتے ہیں تو آتے رہیں مجھے فرق نہیں پڑتا اس کی نیت وسوسے کو ختم کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھی.
asked Sep 17, 2021 in نکاح و شادی by حسان

1 Answer

Ref. No. 1603/43-1159

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، ان الفا ظ سے وسوسہ ختم کرنے کی نیت تھی اور طلاق کے لئے کوئی لفظ استعمال نہیں بھی  کیا گیا، محض طلاق کا خیال آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں  پڑے گا۔ وقوع طلاق کے لئے صریح الفاظ یا کنائی الفاظ کے ساتھ طلاق کی نیت ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں  طلاق واقع ہوتی ہے۔  صورت مسئولہ میں نہ تو طلاق صریح ہے نہ کنائی ، اور نہ کسی طرح کی طلاق کی نیت۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔  

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 20, 2021 by Darul Ifta
...