74 views
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت میرا ایک سوال ہے کہ ہماری ایک بہن ہے ڈھائی مہینے سے پریگنٹ تھی تو ان کو کافی طبیعت بھی خراب ہو رہی تھی ان کو خاصی بہت زیادہ ہو رہی تھی جو کہ تکلیف دے خاصی تھی تکلیف بھی بہت ہو رہی تھی اس دوران ان کا ابارشن کرایا گیا ہے حضرت اس میں ذرا یہ بتائیں کیا یہ صحیح ہے یا غلط اس کے بارے میں وضاحت فرما دے کیونکہ ان کو بہت ہی زیادہ پرابلم ہو رہی تھی اور ابارشن کرایا گیا تو ڈاکٹر سے مشورہ بھی نہیں کیا گیا بلکہ میاں بیوی دونوں مشورہ کرکے اور ابارشن کروائے ہیں تو حضرت ابارشن کرانے کی وجہ سے کوئی حکم جاری ہوگا ہمارے دین اسلام کی طرف سے ہماری رہنمائی فرما دیں اس بارے میں .....محمد مجاہد الاسلام رانچی جھارکھنڈ
asked Sep 20, 2021 in اسلامی عقائد by Mk

1 Answer

Ref. No. 1616/43-1200

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حالت حمل میں عورت کی طبیعت خراب ہونا، کھانسی، الٹی  وغیرہ ہونا عام بات ہے۔ کھانسی کا علاج کسی اچھے اسپتال میں کرانا چاہئے تھا۔بلا ڈاکٹر کے مشورہ کے اسقاط حمل جائز نہیں، اس لئے  میاں بیوی نے جو کچھ کیا وہ ناجائز تھا۔ دونوں اللہ تعالی سے توبہ کریں اور حسب حیثیت صدقہ بھی کریں تو بہتر ہے۔

الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. ۔ ۔ وَفِي الْيَتِيمَةِ سَأَلْت عَلِيَّ بْنَ أَحْمَدَ عَنْ إسْقَاطِ الْوَلَدِ قَبْلَ أَنْ يُصَوَّرَ فَقَالَ أَمَّا فِي الْحُرَّةِ فَلَا يَجُوزُ قَوْلًا وَاحِدًا وَأَمَّا فِي الْأَمَةِ فَقَدْ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْمَنْعُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة." (الھندیۃ كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّامِنَ عَشَرَ فِي التَّدَاوِي وَالْمُعَالَجَاتِ وَفِيهِ الْعَزْلُ وَإِسْقَاطُ الْوَلَدِ، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر)

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال: أما في الحرة فلايجوز قولاً واحدًا، و أما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع، كذا في التتارخانية….امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. و هكذا في فتاوى قاضي خان." (الھندیۃ 5 / 356، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 30, 2021 by Darul Ifta
...