83 views
محترم جناب مفتی صاحب
السلام عليكم ورحمةالله و برکاتہ
میرا نام شمیم احمد ہے ۔ میری عمر تقریباً ۷۰ سال ہے بچیوں کی
شادی کر چکا ہو اور وہ خوشحال ہیں ۔ بیٹوں کی شادی ہوچکی ہے۔
میں
بیٹوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ بیٹے برسرِ روزگار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ گھر بھی نہیں ہے۔ کرایۓکے مکان میں رہتے ہیں۔
اب میں انکو کاروبار کے لئے اور کھر کے لئے کچھ پیسے دینا چاہتا ہوں۔ شریعت کے رو سے کیا بیٹیوں سے اجازت لینی ہوگی
یا بیٹوں کو بھی برابر پیسہ دینا ہوگا
مطلع فرمائیں۔ جزاکم اللّہ خیرا
asked Sep 23, 2021 in اسلامی عقائد by Abdullaah

1 Answer

Ref. No. 1627/43-1204

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے پاس جو کچھ آپ کی ملکیت میں ہے آپ اس میں خود مختار ہیں جس کو  جتنا دیناچاہیں دے سکتے ہیں؛ شرعی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بیٹے ضرورتمند ہیں،  اور آپ صاحب حیثیت ہیں ، توآپ ان کی مدد کرسکتے ہیں، کسی بیٹے کو زیادہ ضرورت ہے تو زیادہ دے سکتے ہیں، کسی کو ضرورت نہیں ہے تو بالکل نہ دیں  اس کی بھی اجازت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ بیٹیوں سے اجازت لینے کے بھی مکلف نہیں ہیں، ہاں اگر سب کے مشورے سے ہوتو اس میں کسی کو شکوہ و شکایت نہیں رہتی ہے۔  البتہ اگر بیٹیاں بھی ضرورتمند ہیں تو ان کو فراموش کرنا بہتر نہیں ہے۔  والد کو اپنے اولاد میں انصاف کرنے کو ترجیح دینا چاہئے الا یہ کہ کوئی خاص وجہ ہو۔  نیز وراثت سے محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو ورنہ گناہ گارہ ہوں گے۔

قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (لہندیة 4/391 کتاب الہبة، الباب السادس) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 30, 2021 by Darul Ifta
...