82 views
السلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ ۔میری بیوی سارادن اچھے سے رہتی ہے اور رات کو جب میں اس سے ضرورت کے لئے بولتاہوں  تو وہ جھگڑا کرتی ہے کسی نہ کسی بات پر، اور اگر کبھی  مان بھی جائے تو ایسا ظاہر کرتی ہے کہ مجبور ہو، جس کیوجہ سے میں خودلذتی اور غلط کام کرنے پر مجبور ہوگیاہوں میرا اس سے ایک بچہ  بھی ہے، اور میں چاہتاہوں کہ ہمارا تعلق اچھارہے نہ کہ طلاق کی نوبت آجائے۔مہربانی فرماکر کچھ بتائیں؟احمد
asked Sep 24, 2021 in نکاح و شادی by Ahmed

1 Answer

Ref. No. 1624/43-1197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا بلاکسی وجہ کے انکارکرنا سخت گناہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر عورت قربت سے انکار کردے  اور شوہر اسی طرح ناراضگی کی حالت میں رات  گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ عورت کو سمجھائیں کہ یہ سخت گناہ ہے، اور اللہ کی سخت ناراضگی کا سبب ہے، نماز و روزہ کی طرح اس کو اسلامی حکم سمجھے اور شوہر کو ہرگز منع نہ کرے۔ البتہ اگر کبھی  عورت کی سچ مچ مجبوری ہو تو شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہئے،۔ عورت کی شہوت میں کمی کسی بیماری کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، کسی ماہر حکیم سے بتاکر اس کا علاج کرانابھی مفید رہے گا۔  اگر دوسرا نکاح کرنے کے تذکرے سے بات بن جائے تو یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  یا پھر اگر وسعت ہو تو دوسرا نکاح بھی کیاجاسکتاہے۔ شریعت نے اس سلسلہ میں شوہر کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم طلاق دینے سے بہرصورت شوہر گریز کرے۔ دوسرا نکاح کرنے کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینا شرعا ضروری نہیں ہے۔  شوہر کے لئے خودلذتی اور استمناء بالید جائز نہیں ہے۔

  "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ". رواه البخاري( بدء الخلق/2998) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"إِذَا بَاتَتْ الْمَرْأَةُ مُهَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ". رواه البخاري.(النكاح/4795) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا". رواه مسلم. (النكاح/1736) "وعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ". رواه الترمذي". ( الرضاع/ 1080) فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (سورۃ النساء 3)  (أو جامع فيما دون الفرج ولم ينزل) يعني في غير السبيلين كسرة وفخذ وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه. قال ابن عابدین: وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ. ۔۔۔۔۔۔ بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم. (شامی، باب ما یفسد الصوم 2/399) الاستمناء حرام، وفيه التعزير، ولو مكن امرأته، أو أمته من العبث بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الباب الاول فی بیان السرقۃ 2/170) (فتح القدیر، باب مایوجب القضاء والکفارۃ 2/330) وهل يحل الاستمناء بالكف خارج رمضان إن أراد الشهوة لا يحل لقوله - عليه السلام - «ناكح اليد ملعون» ، وإن أراد تسكين الشهوة يرجى أن لا يكون عليه وبال كذا في الولوالجية (البحرالرائق، باب ما یفسد الصوم 2/293)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 30, 2021 by Darul Ifta
...