الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیہ۵ } آیات متشابہات میں سے ہے، جس کی متعینہ مراد صرف حق تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔ کسی شخص یا کسی جماعت کا اس آیت سے یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ شانہ کی ذات اور اس کا وجود عرش تک محدود ہے، البتہ اس کا علم ہر جگہ موجود ہے یہ قطعاً غلط ہے؛ کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات محدود نہیں ہے، محدود ہونا تو مخلوق وممکن کی صفت ہے۔ حق تعالیٰ اور واجب الوجود اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے؛ اس لئے یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے بالکل صحیح ہے اور حقیقت کے مطابق ہے، اس کی وجہ سے عقیدہ توحید میں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں آتا، اگر کوئی شخص یا کوئی جماعت اس کو قرآن اور عقیدہ توحید کے خلاف کہے، تو وہ اس کی لاعلمی یا غلط فہمی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مختلف کاموں کے لئے فرشتوں کو بھیجنا اور متعین کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیاوی نظام کو اسباب کے ماتحت کیا گیا ہے، ورنہ حق تعالیٰ ان فرشتوں کے محتاج نہیں ہیں۔ (۱)
(۱) وأما الجہۃ والمکان فلا تجوز إثباتہا لہ تعالیٰ ونقول: إنہ تعالیٰ منزہ ومتعال عنہما وعن جمیع سمات الحدود۔ (خلیل السہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۹)
وہو شاہد علیکم أیہا الناس أینما کنتم یعلمکم ویعلم أعمالکم ومتقلبکم ومثواکم وہو علی عرشہ فوق السموات السبع۔ (أبو حیان،طبراني: ج ۲۷، ص: ۱۲۵)
ولا یتمکن في مکان لأن التمکن عبارۃ عن نفوذ بعد في آخر متوہم أو متحقق یسمونہ المکان إلخ … ولا یجري علیہ زمان إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیہ، ’’الدلیل علی کونہ تعالیٰ لا یوصف بالمائیۃ‘‘: ص: ۳۹)