397 views
(۳۸)سوال:دینیات کے سوالات کے جوابات میں ایک سوال اور جواب۔ اللہ ہر جگہ ہے لکھوایا ہے یہ جواب عقیدہ توحید کے سراسر خلاف ہے اور قرآن کے بھی خلاف ہے اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس کا علم ہر جگہ موجود ہے اگر ہم اللہ ہر جگہ موجود ہے کہیں گے تو اللہ ایک نہیں کئی شمار کئے جائیں گے اور یہ عقیدہ گمراہ صوفیوں کی ایک جماعت کا عقیدہ تھا۔ کہ اللہ ہر جگہ ہر چیز میں موجودہے اس کو حلول کا عقیدہ کہتے ہیں، قرآن کریم سے ہمیں یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور ہر جگہ کا ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر کسی کو دیکھتا ہے اور ہر چیز کی خبر رکھتا ہے کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود کہیں گے تو دنیا میں جگہ اچھی بھی ہیں اور گندی بھی ہیں اگر اللہ ہر جگہ آتا تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے بہر کیف یہ عقیدہ کافروں اور مشرکوں کا ہے؛ چونکہ وہ جگہ جگہ بت بناکر رکھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان بتوں میں خدا اترتا ہے برائے مہربانی آپ اللہ کہاں ہے کا جواب یہ لکھوائیں کہ اللہ عرش پر ہے اور یہ ہی پڑھائیں یا پھر بھٹکل کے علماء سے اس مسئلہ کی تحقیق کریں، حضرت مفتی صاحب اس مسئلے کی وضاحت مطلوب ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی: مولانا ابو ظفر، شیرپور
asked Sep 27, 2021 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیہ۵ } آیات متشابہات میں سے ہے، جس کی متعینہ مراد صرف حق تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔ کسی شخص یا کسی جماعت کا اس آیت سے یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ شانہ کی ذات اور اس کا وجود عرش تک محدود ہے، البتہ اس کا علم ہر جگہ موجود ہے یہ قطعاً غلط ہے؛ کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات محدود نہیں ہے، محدود ہونا تو مخلوق وممکن کی صفت ہے۔ حق تعالیٰ اور واجب الوجود اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے؛ اس لئے یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے بالکل صحیح ہے اور حقیقت کے مطابق ہے، اس کی وجہ سے عقیدہ توحید میں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں آتا، اگر کوئی شخص یا کوئی جماعت اس کو قرآن اور عقیدہ توحید کے خلاف کہے، تو وہ اس کی لاعلمی یا غلط فہمی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مختلف کاموں کے لئے فرشتوں کو بھیجنا اور متعین کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیاوی نظام کو اسباب کے ماتحت کیا گیا ہے، ورنہ حق تعالیٰ ان فرشتوں کے محتاج نہیں ہیں۔ (۱)

(۱) وأما الجہۃ والمکان فلا تجوز إثباتہا لہ تعالیٰ ونقول: إنہ تعالیٰ منزہ ومتعال عنہما وعن جمیع سمات الحدود۔ (خلیل السہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۹)

وہو شاہد علیکم أیہا الناس أینما کنتم یعلمکم ویعلم أعمالکم ومتقلبکم ومثواکم وہو علی عرشہ فوق السموات السبع۔ (أبو حیان،طبراني: ج ۲۷، ص: ۱۲۵)

ولا یتمکن في مکان لأن التمکن عبارۃ عن نفوذ بعد في آخر متوہم أو متحقق یسمونہ المکان إلخ … ولا یجري علیہ زمان إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیہ، ’’الدلیل علی کونہ تعالیٰ لا یوصف بالمائیۃ‘‘: ص: ۳۹)

 

answered Sep 27, 2021 by Darul Ifta
...