61 views
ایک آڈتی پولیس کی خاطر داری کرتا ہے جس کی وجہ سے اسکی اچھی پکڑ بن گئی اب کوئی راستے میں گاڑی پکڑی گئی گاڑی مالک نے اس آڈتی کو فون کیا کہ گاڑی نکلوادو اس  آڈتی نے پانچسو روپے مانگے اور پولیس کو فون کرکے گاڑی نکلوادی پولیس کو پانچسو میں سے دو سو دئیے یا نہیں بھی دئے یا خود پولیس نے منع کردیا تو کیا یہ پیسہ لینا درست ہے یا نہیں؟؟
asked Sep 30, 2021 in تجارت و ملازمت by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1640/43-1285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑی والے سے فون پر معاملہ طے کرلینے کے بعد آڈتی کی کوشش اور محنت سے گاڑی مل گئی تو اس آڈتی کا اپنا معاوضہ لینا جائز ہے، اور یہ دلالی کے زمرے میں آئے گا۔  آڈتی شخص اگر خود اپنے طور پروہ کام  کرا دیتا ہے اور کچھ بھی طے نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی  جانب سے تبرع شمار ہوگا اس پر معاوضہ طلب کرنے کاحق  نہیں۔ تاہم اگر پولس کے ساتھ مل کر آڈتی نے کوئی پلاننگ کی ہو تو یہ درست نہیں ہے۔ 

عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)

قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 1, 2021 by Darul Ifta
...