80 views
سوال: ایک صاحب کی اپنی بیوی سے بحث و تکرار ہورہی تھی، ماموں سے کچھ ناچاقی ہوجانے کی وجہ سے، جھگڑے کے دوران انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو ماموں کے گھر گئی تو تجھے طلاق، اس واقعہ کو کئی سال ہوگئے ہیں اب تک وہ ماموں کے گھر نہیں کئی ہے، اب ماموں نے اپنا پہلا گھر بیچ کر دوسرا گھر بنا لیا تو کیا اس نئے گھر میں وہ عورت جاسکتی ہے؟ اگر جاتی ہے تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ (زاہداللہ۔افغانستان)
asked Sep 30, 2021 in طلاق و تفریق by Zahidullah

1 Answer

Ref. No. 1639/43-1213

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہروہ گھر جو ماموں کا رہائشی ہے چاہے ملکیت کا ہو یا کرایہ کا ہو، اور ماموں کی طرف منسوب ہو اس گھرمیں عورت کا داخل ہونا ممنوع ہے۔ اس لئے اگر ماموں کے نئے مکان میں  جائے گی تو حسب شرط شرعا طلاق واقع ہوجائے گی۔  البتہ اگر جانا ضروری ہے، اور تین طلاق کو دخولِ دار پر معلق کیا ہو تو ایک حیلہ اختیار کرسکتے ہیں کہ عورت کو ایک طلاق رجعی دیدی جائے، اورعدت گزرجانے  کے بعد عورت اپنے ماموں کے گھر چلی جائے۔تو اس طرح قسم بھی پوری ہوجائے گی اور طلاق کا محل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق بھی  واقع نہیں ہوگی، اب شوہر دوبارہ اس سے نکاح کرلے، تو اس کے بعد عورت کے لئے ماموں کے گھر جانے کا سلسلہ بھی شروع  ہوجائے گا۔  خیال رہے کہ اب شوہر شرعا صرف دو طلاق کا مالک ہوگا۔ کیونکہ وہ ایک طلاق دے چکاہے۔

حلف لا یدخل دار فلان یراد بہ نسبة السکنی إلیہ عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناہ کون محل الحقیقة فرداً من أفراد المجاز (شامی، کتاب الأیمان، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقاً لکن إن وجد فی الملک طلقت وعتق وإلا لا،فحیلة من علق الثلاث بدخول الدار أن یطلقھا واحدة ثم بعد العدة تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Oct 5, 2021 by Darul Ifta
...