80 views
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے مسئلہ یہ ہے
ایک شخص کے ۲ بچّے ہیں اُسنے اپنی بیوی سے کسی بات پر بحث ہونے کے بعد یہ کہا کہ اگر تُجھے تیسرا بچہ ہوا تو ۳طلاق یہ کہکر وہ چپ ہو گیا
اب اسکی بیوی حمل سے ہے اور چوتھا مہینہ چل رہا ہے تعلیق کو ختم کرنے کے لیے دار القضاء کے  ایک مفتی صاحب کی خدمت  میں مسئلہ کو رکھا گیا مفتی صاحب نے فرمایا کہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق بائن دیدے ولادت کے بعد دوبارہ نکاح کر لے اس سے  تعلیق ختم ہو جائیگی لیکن شوہر کو آئندہ 2 طلاق کا اختیار ہوگا
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس پر عمل کر سکتے ہیں یا نہیں
برائے کرم مدلل و مفصّل جواب دیکر عند اللّٰہ ماجور ہوں
فقط والسلام
محمد مہربان مظفّر نگر انڈیا
asked Oct 9, 2021 in طلاق و تفریق by meharbankhanindia

1 Answer

Ref. No. 1654/43-1234

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مفتی صاحب کا بتایاہوا مسئلہ شرعا درست ہے، ایک طلاق فورا  فوری دیدی جائے ۔  مذکورہ  حیلہ اختیار کرنےسے تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور ولادت کے وقت  جبکہ وہ طلاق کا محل نہیں  رہے گی اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اس کے بعد شوہر کو خیال ررہنا چاہئے کہ صرف دو طلاقیں اب باقی رہ جائیں گی، اس لئے پھر کبھی طلاق نہ دے۔

وعرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق فدخلت وقع عليها ثلاث تطليقات". (فتح القدیر 10/437 ط سعید) "فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها". (شامی، 3/357)

وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق". (الھندیۃ 1/420)

لان الطلاق المقارن لانقضاء العدۃ لایقع (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، 4/618 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Oct 14, 2021 by Darul Ifta
...