74 views
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں شہر حیدرآباد کے ایک مدرسے میں اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں یہ نظام چل رہا ہے کہ اساتذہ کو پچہتر فیصد تنخواہ دی جا رہی ہے اور باقی پچیس فیصد کے بارے میں کہا گیا ہے اساتذہ اپنی باقی پچیس فیصد تنخواہ کے برابر چندہ جمع کریں ماہ رجب تک تو انہیں مکمل تنخواہ جاری کی جائے گی اور اگر کسی نے پچیس فیصد چندہ جمع کرنے کے وعدے پر مکمل تنخواہ حاصل کر لی اور رجب تک وہ پچیس فیصد چندہ جمع نہیں کیا تو اس کے بعد سے تین مہینے کی مکمل تنخواہ روک لی جائے گی
حالاں کہ تعلیم کا سلسلہ ماہ  شعبان سے ہی جاری ہے اور اساتذہ بلا ناغہ مدرسہ پہنچ رہے ہیں اور مکمل وقت صبح آٹھ بجے تا شام ۵ بجے تک کا وقت بھی دے رہے ہیں ، تو ایسے میں اساتذہ کو خود ان کا حق دینے کے لیے پچیس فیصد چندہ کی شرط لگانا اور نہ کر پانے پر آخری تین ماہ کی مکمل تنخواہ وضع کرلینا کہاں تک درست ہے
asked Oct 12, 2021 in متفرقات by Mohammad Saleem

1 Answer

Ref. No. 1655/43-1238

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ  پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے  اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی  اساتذہ کی رعایت کی  ہے۔

لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Oct 20, 2021 by Darul Ifta
...