57 views
میں نے اینٹ کی چمنی والے کو پچاس ہزار روپئے  دئے اور یہ طے پایا کہ دس ہزار روپئے فی ٹرالی کے حساب سے پانچ ٹرالی اینٹیں  وہ ہم کو دے گا، یا ہمارے کہنے پر وہ بیچ دے گا؟ چنانچہ چمنی والے نے  جب اینٹ پندرہ ہزار روپئے فی ٹرالی ہوگئی تو اس نے میری اینٹین بیچ دیں اور پچھتر ہزار روپئے اس نے مجھے دیدئے۔ جو اینٹین اس نے میری جانب سے بیچیں ان کو الگ کردیا تھا لیکن  میں نے ان اینٹوں پر قبضہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ تو کیا یہ بیع درست ہوئی اور میرے لئے وہ پیسے لینا جائز ہے؟ حارث
asked Oct 14, 2021 in تجارت و ملازمت by shakira1

1 Answer

Ref. No. 1644/43-1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی،  اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں،  اس لئےمذکورہ  معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔  بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔

لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)

نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)

وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Oct 14, 2021 by Darul Ifta
...