65 views
(۴۸)سوال:ایک شاعر محمد علوی نے اپنی شاعری کا ایک مجموعہ بنام ’’چوتھا آسمان‘‘ کے صفحہ نمبر:۱۱۹؍ میں دو اشعار قابل اعتراض لکھیں ہیں، وہ یہ ہیں:
اگر تجھ کو فرصت نہیں تو نہ آ

مگر ایک اچھا نبی بھیج دے
بہت نیک بندے ہیں اب بھی تیرے

کسی پہ تو یا رب وحی بھیج دے
ان اشعار میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ نے کفر یا ارتداد کا گناہ کیا ہے یا نہیں؟ ایسے اشعار کو لکھنے والے، شائع کرنے والے اور پڑھنے والے، شرعاً گناہ گار ہیں یا نہیں؟ ان پر کیا حکم لگتا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: حاجی محمد عثمان، حیدر آباد
asked Oct 14, 2021 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ کا مقصد معلوم ہوئے بغیر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانویں احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفیٔ کفر کا ہو تو بھی کفر کا فتویٰ وفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر، ووجد واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسیناً للظن بالمسلم‘‘ (۱)

مذکورہ فی السوال اشعار میں کفریہ بات کہی گئی ہے؛ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین‘‘ سے یہ کلام (دو اشعار) معارض ہیں اور اس قسم کے کلام سے کفر یا گناہِ کبیرہ لازم آتا ہے؛ پس مقصد شاعر معلوم ہونے کے بعد ہی صریح بات کہی جا سکتی ہے؛ لہٰذا مقصد معلوم کر کے تحریر فرمائیں؛ نیز اس قسم کے محتمل کلام کی اشاعت اور اسے پڑھنا درست وجائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸۔

(۲) إذا کان في المسألۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي

أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

 

answered Oct 14, 2021 by Darul Ifta
...