66 views
(۴۹) سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ ایسا جس نے دین سے اظہار بیزاری کیا ہے اور ارتداد اختیار کیا ہے؛ چنانچہ اس کا کہنا یہ ہے کہ آپ لوگ مجھے مسلمان کہتے کیوں ہیں میرے پاس جو دینی کتابیں تھیں وہ میں نے واپس کردی ہیں اور اس نے شادی بھی غیر مسلم عورت سے کی ہے اور اسی حالت پر بدستور قائم ہے اور یوں کہتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد مجھے دفن مت کرنا؛ بلکہ جلانا غرضیکہ پورے طور پر غیر مسلموں کی راہ اختیار کرلی ہے نماز روزہ کا تو ذکر ہی کیا؟ گھر میں مندر بناکر وہ اور سب لوگ پوجا کرتے ہیں۔ اور دین کی دشمن جماعت سے اس کا
تعلق ہے اور اس کے دونوں لڑکے بھی اسی طرح کا عمل کرتے ہیں اور ان کے نام بھی غیر مسلموں کی طرح ہیں۔ اور ایک لڑکے نے اپنی شادی بھی غیر مسلم عورت سردارنی سے کی ہے اور وہ عورت بھی گردوارہ بناکر بچوں کے ساتھ گھر میں ہی پوجا پاٹ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہے یا کافر؟ اور کیا ایسے شخص کو کسی مسجد یا دینی ادارہ کا یا وقف علی اللہ کا ممبر و متولی بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: فرقان احمد خاں صاحب، پرانی دہلی
asked Oct 14, 2021 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کے علاوہ کس کی پوجا کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے(۱) اور سوال میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ مندر میں غیراللہ کی پوجا کرتے ہیں؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔(۲) اور سوال میں مذکور دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے ان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی وذمہ دار نہیں ہوسکتا (۳)؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

(۱) {وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ} (سورہ بنی اسرائیل : ۲۳) …{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاہع۱۱۰} (سورۃ الکہف: ۱۱۰)

(۲) {وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا  لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵لا} (سورۃ البینہ: ۵)

 قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر یدل علی الکفر، فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ بن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

(۳)وینزع وجوباً بزازیۃ لو الواقف درر فغیرہ أولی غیر مأمون أو عاجزا أو ظہر بہ فسق إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب: یأثم بتولیۃ الخائن‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)

وإن کا غیر مأمون أخرجہا من یدہ وجعلہا في ید من یثق بدینہ إلخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۰)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Oct 14, 2021 by Darul Ifta
...