الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کے علاوہ کس کی پوجا کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے(۱) اور سوال میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ مندر میں غیراللہ کی پوجا کرتے ہیں؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔(۲) اور سوال میں مذکور دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے ان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی وذمہ دار نہیں ہوسکتا (۳)؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔
(۱) {وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ} (سورہ بنی اسرائیل : ۲۳) …{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاہع۱۱۰} (سورۃ الکہف: ۱۱۰)
(۲) {وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵لا} (سورۃ البینہ: ۵)
قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر یدل علی الکفر، فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ بن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)
(۳)وینزع وجوباً بزازیۃ لو الواقف درر فغیرہ أولی غیر مأمون أو عاجزا أو ظہر بہ فسق إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب: یأثم بتولیۃ الخائن‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)
وإن کا غیر مأمون أخرجہا من یدہ وجعلہا في ید من یثق بدینہ إلخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۰)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند